میرا تعلق ضلع اٹک تحصیل حسن ابدال گاؤں بھیڈیاں سے ہے، ہمارا گاؤں خیبر پختونخوا کے بارڈر پر ہے، جن دنوں آٹے کی قلت ہوتی ہے، ان دنوں ہمارے علاقے کے لوگ عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی غرض سے سستا آٹا خریدتے ہیں، اور پھر عوام کو نہیں دیتے اور اس آٹے کو خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور میں اسمگل کرکے اچھا خاصا منافع کماتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ از رُوئے شرع اُن چیزوں میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے جن میں درج ذیل صفات پائی جائیں:
(1) وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا (طعام ) کے طور پر استعمال ہوتی ہو، یعنی صرف کھانے پینے کی چیز نہ ہو، بلکہ بطورِ طعام استعمال ہوتی ہو۔
(2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔
(3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔
(4) ذخیرہ اندوزی کرنے والا شخص اس غذا کی قیمت اتنی بڑھاکر بیچے کہ عوام کو اس سے ضرر لاحق ہو۔
لہذا اگر کسی چیز کی عام لوگوں کو ضرورت ہو اور اسے ذخیرہ کرنے کے نتیجے میں وہ چیز آسانی سے نہ ملے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو یا وہ اتنی مہنگی ہوجائے کہ عام لوگوں کے لیے عرفاً ضرر (نقصان) کا باعث ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں، ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں سائل کے گاؤں والوں کے لیے جائز نہیں کہ جھوٹ بول کراور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی غرض سے سستا آٹا خریدیں اور پھر دوسرے کسی شہر مہنگے داموں میں فروخت کریں، یہ عمل ذخیرہ اندوزی کے ساتھ مسلمانوں کودھوکہ دینا بھی ہے، جو کبیرہ گناہوں میں سےہےاور مکروہ ہے۔
قرآن میں اللہ تعالی نے جھوٹ بولنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ "
ترجمہ:"اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا ، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔"
(بیان القرآن، سورۃ:مومن، آیت:28)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
"عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من علامات المنافق ثلاثة اذا حدث كذب واذا وعد اخلف واذا اؤتمن خان."
(الصحيح لمسلم، حديث:214)
ترجمہ:"منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگر چہ وہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے ، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، تیسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.
(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يومًا لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس» وفي رواية «فقد برئ من الله وبرئ الله منه» قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا» الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال.
(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس وقال في الفصفصة بالكسر هو نبات فارسيته إسفست تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيرا هداية ".
(کتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:398، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144307101021
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن