بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زخم سے خون بہنے کا حکم


سوال

میرے ہاتھ میں زخم ہوا ہے،وضو کرنے کے بعد اس میں سے خون نکلتا ہے تو کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

جی ہاں،زخم میں سے خون  نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

البتہ وہ زخم اگر  ایسا ہو کہ اس میں سے مسلسل خون بہتا رہتا ہو، اور کسی نماز کے مکمل وقت میں بالکل  بند ہی نہ ہو  کہ اس وقت میں وضو کرکے وقتی فرض نماز پاکی کے ساتھ ادا کی جاسکے تو  ایسی صورت میں آپ  شرعی معذور شمار ہوں گے،  اور آپ کے  لیے حکم یہ ہوگا کہ   ہر نماز کے وقت کے اندر ایک بار وضو کر کے اس وقت کی فرض نماز  اور جتنی چاہیں نمازیں پڑھ لیں چاہے خون بہہ رہا ہو۔ نماز کا وقت ختم  ہوتے ہی آپ کا وضو بھی ختم ہوجائے گا، دوسری نماز کے  لیے نیا وضو کرنا ضروری ہوگا۔ البتہ اگر وقت کے اندر اندر وضو توڑنے کا کوئی اور سبب پیش آگیا، مثلًا قضاءِ حاجت کرلی تو وضو ٹوٹ جائے گا۔  اور آپ اس وقت تک زخم سے خون بہنے کے مسئلے میں شرعی معذور رہیں گے جب تک کسی نماز کا مکمل وقت خون نکلے بغیر نہ گزر جائے، اگر کسی بھی نماز کا مکمل وقت زخم سے خون رسے بغیر گزر گیا تو آپ شرعی معذور نہیں رہیں گے، پھر عام آدمی والا حکم ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج."(134/1)

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه  ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق (1/305)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں