کسی مدرسے کا مہتمم سادات خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے مدرسے کے لئے لوگوں سے وجوبی صدقات (زکات) وغیرہ حصول کرسکتا ہے یا نہیں۔
صورت مسئولہ میں مدرسےکا مہتمم مدرسے کے طلباء کا وکیل ہوتا ہے، مہتمم صاحب کا مدرسہ کے طلباء کے لیے زکات، صدقات، عطیات وغیرہ جمع کرنا درست ہے، اور مذکورہ رقم کو مدرسہ کے طلباء کی ضروریات مثلاً: کھانے، پینے، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات میں بحسب شرائط خرچ کرنا لازم ہو گا۔ الغرض مدرسہ کا مہتمم سادات خاندان سے ہوتےہوئے بھی مدرسہ کے طلباء کے لیے زکات، صدقات وغیرہ وصول کر سکتا ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
" وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلا من جانب الفقراء أيضا فلا ضمان عليه فإذا ضمن في صورة الخلط لا تسقط الزكاة عن أربابها فإذا أدى صار مؤديا مال نفسهكذا في التجنيس".
(کتاب الزکاۃ، ج: 2، صفحہ: 227، ط: دار المعرفة بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله إذا وكله الفقراء) لأنه كلما قبض شيئا ملكوه وصار خالطا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع، لكن بشرط أن لا يبلغ المال الذي بيد الوكيل نصابا".
(کتاب الزکاۃ، ج: 2، صفحہ: 269، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100815
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن