بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان کے مالک کا زکات لینا


سوال

 میں ایک مدرسے میں مدرس ہوں، ٹوٹل آمدن 25 ہزار ہے، لیکن میرے والد صاحب نے مکان رہائش کے لیے دیا ہے اور میرے استعمال میں ہے اور میری ملکیت میں ہے اور مکان کی چھت میں نے خود 10 لاکھ کی خریدی ہے، مدرسے والوں نے مجھے 5 ہزار زکات دی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ مکان کی چھت زکات سے مانع ہے یا نہیں ؟میرے پاس اس کے علاوہ جمع پونجی نہیں ہے اور نہ ہی نصاب کی بقدر مال ہے۔ راہ نمائی فرمائیں

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل صاحب نصاب نہیں ہے، اور سید وغیرہ بھی نہیں ہے تو مکان کا مالک ہونے کے باوجود ضرورت کی حد تک زکات لے سکتا ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين"

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، صفحہ: 170، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں