زکوٰۃ کی نیت سے غریب کو قربانی کروانا یا حصہ دیناکیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر زکوۃ کے پیسوں سے قربانی کا جانور خرید کر کسی مستحق زکوۃ کو مالک بناکر دے دیاجائے، یا اس کو ایک حصہ کے بقدر رقم دے دی جائے اور وہ مستحق اس سے خود قربانی کرلے یا کسی بڑے جانور میں حصہ ڈال دے تو یہ دونوں صورتیں جائز ہیں، اور زکوۃ ادا ہوجائے گی، لیکن اگر مستحق کو جانور خرید کر نہیں دیا، یا حصہ کی رقم اس کو نہیں دی، بلکہ جانور خود خریدا یا اس میں ایک حصے کی نیت مستحق کی طرف سے کردی، تو یہ صورت جائز نہیں ہے، اور اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 344، ط: سعید)
وفيه أيضاً
"وشرعا (تمليك)... (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع)... (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه... مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 258،256، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503100117
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن