میں رہنے(رہائش) کے مقصد سے جائیداد ، فلیٹ خریدتا ہوں، ليکن میں وہاں نہیں رہتا، میں نے وہ جائیداد کرائے پر دی تھی کہ وہاں سے کرایہ حاصل کر کے جہاں میں اس وقت رہ رہا ہوں ادا کروں، اس کی زکات کیسے ہوگی؟ جائیداد کی قیمت یا کرایہ پر؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے رہائش کی نیت سے جو جائیداد/فلیٹ وغیرہ خریدا ہے تو سائل کی نیت چوں کہ تجارت (یعنی خرید و فروخت ) کی نہیں ہے تو سائل پر اس گھر کی مالیت پر زکات نہیں واجب نہیں ہے، البتہ کرایہ کی مد میں جو رقم آئے اور ضروری اخراجات اور واجب الادا قرضوں سے زائد ہو تو اس پر زکات کی تفصیل یہ ہے کہ اگر سائل صاحبِ نصاب ہے، ( یعنی اگر اس کے پاس صرف سونا ہے تو ساڑھے سات تولہ سونا موجود ہے، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر نقدی یا مالِ تجارت یا ان میں سے کسی دو یا زیادہ کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہے) تو سال مکمل ہونے پر سائل کے پاس جو سونا ، چاندی یا نقدی (بشمول کرایہ کی مد میں آئی ہوئی رقم ) ہوگی، اس کا ڈھائی فیصد زکات میں ادا کرنا واجب ہوگااور اگر سائل صاحب نصاب نہیں ہےیعنی سائل کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر نقدی یا تینوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہیں ہے تو ایسی صورت میں زکات لازم نہ ہو گا۔
فتاوی قاضی خان میں ہے:
"لو اشتري الرجل دارا أو عبدا للتجارة، ثم آجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما آجر فقد قصد المنفعة ... إذا آجر داره أو عبده بمائتي درهم لا تجب الزكوة ما لم يحل الحول بعد القبض..."
(کتاب الزکوۃ، فصل فی مال التجارۃ ج نمبر ۱ ص نمبر۲۲۱و ۲۲۳،دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100191
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن