بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ یا صدقہ خیرات سے صاحب حیثیت رشتہ داروں قرآن پاک خرید کر دینا


سوال

زکوۃ یا صدقہ خیرات کے پیسوں سےرشتہ داروں کو قرآن پاک خرید کر دیا جا سکتا ہے؟ جب کہ رشتہ دار صاحب حیثیت ہوں ،اور دینے والے کی نیت ہدیہ یا  صدقہ جاریہ کی  ہو۔

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ (صدقہ فطر، فدیہ، نذر اور کفارات) کے مصارف غرباءاور  مساکین ہیں،جو کہ زکوۃ کے مستحق ہوں ،اور ان میں تملیک( مالک بنا کردینا )  بھی شرط ہے ، جب کہ نفلی صدقات کسی بھی خیر کے کام میں صرف کیے جاسکتے ہیں ، اس میں تملیک بھی شرط نہیں ہے ،اور  مال دار کو بھی نفلی صدقہ دیا جاسکتا ہے،لہذا صورتِ مسئو لہ میں زکوۃ یا صدقات واجبہ کی رقم سے صاحب حیثیت رشتہ داروں کو قرآن پاک خرید کردینا درست نہیں ،اور اس صورت میں زکوۃ اور صدقات واجبہ کی ادائیگی بھی شرعاً نہیں ہوگی،نیز یاد رہے کہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کی ادائیگی کے لیے دینے والے کی نیت کا ہونا ضروری ہوتا ہے ،لہذا ہدیہ یا صدقہ جاریہ کی نیت سے زکوۃ اور صدقات واجبہ ادا نہیں ہوتے ،البتہ نفلی صدقات کی رقم سے صاحب حیثیت رشتہ داروں کو قرآن پاک خرید دینا درست ہے ،چاہے دینے والے کی نیت ہدیہ کی ہویا صدقہ جاریہ کی ہو۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه".

(کتاب الزکوۃ،الباب السابع في المصارف،ج:1ص: 189،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة."

(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ، ج: 2، ص: 346، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية."

(کتاب الزکوۃ،ج:2،ص:268،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.

وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة"

(کتاب الزکوۃ،‌‌فصل شرائط ركن الزكاة،ج:2،ص:47،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں