بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات اعلانیہ دینا چاہیے یا خفیہ طریقہ سے؟


سوال

زکات دینے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی زکات لوگوں کے سامنے دینا بہتر ہے یا اس انداز سے ادا کرنا بہتر ہے کہ ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو بھی پتا  نہ چلے؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

اصل تو یہ ہے کہ زکات و صدقات وغیرہ چھپ کر خفیہ طریقہ سے ادا کیے جائیں، کیوں کہ اس میں ریاکاری سے بچنے کی بھی قوی امید ہوتی ہے اور جس غریب کو زکات وغیرہ دی جارہی ہے اس کی عزتِ  نفس بھی محفوظ رہتی ہے، البتہ اگر کسی موقع پر یہ محسوس ہو کہ اعلانیہ زکات وغیرہ دینا دیگر لوگوں کے  لیے بھی ترغیب کا باعث بنے گا تو اس موقع پر اعلانیہ زکات بھی دی جاسکتی ہے، بلکہ ایسے موقع پر اعلانیہ زکات دینا ہی افضل ہوگا، لیکن اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ اعلانیہ زکات وغیرہ دینے میں ریاکاری داخل نہ ہوجائے یا جس کو دی جارہی ہو اس کی عزت نفس مجروح ہونے کا باعث نہ بن رہی ہو، ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوجائے گا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ}

ترجمہ: اگر تم ظاہر کر کے دو صد قوں کو تب بھی اچھی بات ہے ۔ اور اگر ان کا اِخفا کرو اور فقیروں کو  دے دو تو یہ (اِخفا) تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اور الله تعالیٰ (اس کی برکت سے) تمھارے کچھ گناہ بھی دور کردیں گے اور الله تمھارے کیے ہوئے کاموں کی خوب خبر رکھتے ہیں ۔  (از بیان القرآن)

تفسیر بیان القرآن  میں ہے:

"یہ آیت فرض اور نفل صدقات کوشامل ہے اور سب میں اِخفا ہی  افضل ہے اور  مراد   اَفضلیتِ اِخفا  سے آیت میں اَفضلیت فی نفسہ  ہے،  پس اگر کسی  مقام پرکسی عارض سے مثلًا رفعِ  تہمت یا امید کوترجیح ہوجائے تو اَفضلیت فی نفسہ کے منافی نہیں۔  اور یہ جو کہا: "کچھ گناہ"  تو  وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسے حسنات سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ۔"

معارف القرآن میں ہے:

"بظاہر  یہ آیت  فرض اور  نفل سب صدقات کو شامل ہے اور سب میں اِخفا  ہی افضل ہے،  اس میں دینی مصلحت بھی ہے کہ ریاء سے اَبعد ہے،  لینے والا بھی نہیں شرماتا، اور دنیوی مصلحت بھی ہے کہ اپنے مال کی مقدار عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی، اور  مراد اَفضلیتِ اخفاء سے آیت میں اَفضلیت فی نفسہ ہے، پس اگر کسی مقام پر کسی عارض سے مثلًا رفعِ تہمت یا امیدِ اقتدا  وغیرہ  سے اِظہار کو ترجیح ہوجاوے تو اَفضلیت فی نفسہ کے منافی نہیں۔  وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ کفارۂ  سیات کچھ اِخفا  کے ساتھ تو خاص نہیں، صرف اس بات پر تنبیہ کرنے کے  لیے اِخفا  کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے کہ اِخفا  میں تجھے اگر کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آئے تو منقبض نہیں ہونا چاہیے؛ اس  لیے کہ تمہارے  گناہ اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے اور یہ تمہارے  لیے فائدۂ  عظیمہ ہے۔"

بخاری شریف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَدْلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ؛ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَتَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ."

(باب الصدقۃ بالیمین،2/138)

ترجمہ: ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن کہ سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا : حاکمِ عادل، اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو، اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے، اور وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کے لیے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لیے نہیں آسکتا، اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا، اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔

(المعجم الأوسط - (3 / 378)

"عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن صدقة السر تطفئ غضب الرب تبارك وتعالى".

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک مخفی صدقہ ربّ کے غضب کو بجھا دیتا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں