بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات سے بچنے کے لیے حیلہ کرنا


سوال

 کیا اس نیت سے سونا اولاد کے نام کیا جا سکتا ہے کہ اس کے اوپر زکات کم ہو جائے،مثلاً: بیوی کے پاس 21 تولہ سونا موجود ہے، جس کی زکات تقریبا ایک لاکھ سے اوپر بنتی ہے، شوہر کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ اس سونے کی زکات ادا کر سکے اور نہ ہی بیوی کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ ہے، جس سے اس سونے کی زکات ادا ہو سکے،تو کیا اس وجہ سے  بیوی اپنا  سونا اپنی اولاد کی ملکیت میں دے سکتی ہے تاکہ زکات لازم نہ ہو یا کم ہو؟  راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ   میں سال مکمل ہونے سے پہلےسونا اس نیت سے اولاد کی ملکیت میں دینا کہ زکات کم ادا کرنی پڑے یا مکمل زکات ہی  ساقط ہوجاۓ،اس طرح کرنے سے زکات تو  ساقط ہوجاۓ گی ،مگر ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔کیوں کہ اس میں فقراء کے حق کو ختم کرنا لازم آتاہے۔

نيز سونا اولاد كي ملكيت ميں دينے سے متعلق تفصيل یہ ہے کہ   اگر زوجین کی اولاد نابالغ  ہو اور سونانابالغ کےولی یعنی والد وغیرہ کے قبضہ میں  دیا جائے تو  درست ہو گا  اور پھر بیوی  پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی،اور اگراولاد بالغ ہو تو سوناان کے قبضے میں دینا ضروری ہوگا ، صرف نام کردینا کافی نہیں ہوگا۔  البتہ  جب نابالغ اولاد  بالغ ہوجاۓ اور اس کے پاس موجود سونا نصاب کے بقدر ہو ،تو اس وقت سال گزرنے پر  اس سونے کی  زکات ادا کرنا شرعا اولاد پر واجب ہوگا، خواہ سونا استعمال میں ہو یا استعمال میں نہ ہو۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الحيلة ‌لإسقاط ‌الزكاة: يحرم التحايل ‌لإسقاط ‌الزكاة كأن يهب المال المزكى لفقير ثم يشتريه منه، أو يهبه لقريب قبل حولان الحول ثم يسترده منه فيما بعد."

(‌‌الباب الرابع: الزكاة وأنواعها،‌‌ الفصل الأول: الزكاة،‌‌ المبحث السابع: مصارف الزكاة،‌‌ المطلب الثاني: أحكام متفرقة في توزيع الزكاة،‌‌ سادسا: الحيلة لإسقاط الزكاة،1978/3،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی  میں ہے :

"( وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية ) والعلم به ولو حكماً ككونه في دارنا: (قوله ‌عقل ‌وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها، وإيجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد والعشر."

(‌‌كتاب الزكاة، 258/2، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا :

"وإذا ‌فعله ‌حيلة لدفع الوجوب كأن استبدل نصاب السائمة بآخر أو أخرجه عن ملكه ثم أدخله فيه، قال أبو يوسف لا يكره؛ لأنه امتناع عن الوجوب لا إبطال حق الغير. وفي المحيط أنه الأصح.

وقال محمد: يكره، واختاره الشيخ حميد الدين الضرير؛ لأن فيه إضرارا بالفقراء وإبطال حقهم مآلا، وكذا الخلاف في حيلة دفع الشفعة قبل وجوبها : وقيل الفتوى في الشفعة على قول أبي يوسف، وفي الزكاة على قول محمد، وهذا تفصيل حسن شرح درر البحار."

(كتاب الزكوة، 284/2، ط :سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144502100731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں