سودی رقم سے گاڑی خریدی، اب اس کی آمدنی پر زکوۃ ہے یا نہیں؟
سودی آمدنی حرام مال ہے۔ اور حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔ باقی حرام مال کسی کو استعمال میں دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے وہ مال پاک ہوگا۔
لہذا اس صورت میں تو پوری گاڑی ہی صدقہ کرنا واجب ہے چہ جائے کہ اس کی آمدنی پر زکوۃ کا سوال ہو، یاپھر اس کے بقدر رقم صدقہ کرے، اور پھر گاڑی استعمال کرے۔
’’شامی‘‘ میں ہے:
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202585
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن