بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ سے بچنے کے لیے نابالغ بچی کو زیورات کا مالک بنانے کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی میں جو میری بیگم کو تحائف ملیں ہیں زیور کی شکل میں، مجھے اس کی سالانہ زکوۃ  نکالنا بہت مشکل ہو رہا ہے تو اس زیور میں سے کچھ حصہ میں اپنی بیٹی کے نام کر سکتا ہوں جو کہ نابالغ ہے؟ تاکہ زکوۃ کا نصاب ختم ہو جاۓ، اگرنہیں تو پھر کیا صورت  ہوسکتی ہے؟ اور وہ زیورات تحائف ہیں تو اسے بیچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ میں ایک تنخواہ دار آدمی ہوں اور سالانہ زکوۃ نکالنا میرے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ اللہ کا ایک حکم ہے اور مالی عبادت ہے لہذا اس عبادت کو بجا لانا ہر صاحب نصاب شخص کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی نے کوئی حکم انسان کی طاقت اور برداشت سے زیادہ انسانوں پر واجب نہیں کیا ہے لہذا صورت مسئولہ میں جب زیورات نصاب کے برابر ہیں تو سائل کی بیوی پر زکوۃ واجب ہے؛ کیوں کہ وہ ہی زیور کی مالک ہے۔پس زکوۃ ادا کرنے کا اصل طریقہ یہ ہی کہ سونے کی صورت میں ہی زکوۃ ادا کردی جائے، یعنی موجود سونے کا ڈھائی فیصد سونے کی صورت میں ہی ادا کردیا جائے۔ اس طرح زکوۃ ادا کرنا مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے کوئی اضافی رقم نہیں چاہیے بلکہ موجود سونے سے ہی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔سائل کو زکوۃ ادا کرنا اس لیے مشکل لگ رہا ہے؛ کیوں کہ  اس نے ایک اپنی آمدن سے بیوی کے زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کو اپنے لیے لازم سمجھا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔پس جب سائل اپنی آمدن سے زکوۃ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے اور بیوی کے پاس بھی اتنی نقدی نہیں ہے کہ وہ زیورات کی زکوۃ ادا کرسکے تو پھر زیورات کی صورت میں زکوۃ ادا کردی جائے یا زیورات بیچ کر حاصل شدہ رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے۔

نیز زکوۃ سے بچنے کے لیے سائل کا اپنی نا بالغ بیٹی کو زیورات کا مالک بنانا مکروہ ہے؛  لہذا ایسا نہ کیا جائے بلکہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے زیورات سے ہی زکوۃ ادا کی جائے  اور اللہ سے امید کی جائے کہ اس زکوۃ کی ادائیگی کی وجہ سے جان مال میں برکت دیں گےکیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ صدقات کو بڑھا تے ہیں۔  

یہ بھی ملحوظ رہے کہ سائل کی بیوی کی ملکیت میں اگر صرف سونا ہے اس کے ساتھ چاندی، نقدی یا مالِ تجارت کچھ بھی نہیں ہے، تو اس پر زکات  تب واجب ہوگی جب کہ سونے کی مقدار ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو، اگر سونا اس سے کم ہو تو زکات واجب نہیں ہوگی۔ اور اگر سونے کے ساتھ کچھ نقدی بھی بچت میں ہے، یا سونے کے ساتھ چاندی یا مالِ تجارت بھی ہے تو پھر سونے کا ساڑھے سات تولہ ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ مجموعی مال کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو زکات واجب ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة. ويعتبر فيهما أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا يعتبر فيه القيمة عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى ."

(کتاب الزکوۃ ، باب ثالث ، فصل اول ج نمبر ۱ ص نمبر۱۷۸، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل له مائتا درهم أراد أن لا تلزمه الزكاة فالحيلة له في ذلك أن يتصدق بدرهم قبل تمام الحول بيوم حتى يكون النصاب ناقصا في آخر الحول أو يهب ذلك الدرهم لابنه الصغير قبل تمام الحول بيوم أو يهب الدراهم كلها لابنه الصغير أو يصرف الدراهم على أولاده فلا تجب الزكاة، قال الخصاف - رحمه الله تعالى - كره بعض أصحابنا - رحمهم الله تعالى - الحيلة في إسقاط الزكاة ورخص فيها بعضهم قال الشيخ الإمام الأجل شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - الذي كرهها محمد بن الحسن - رحمه الله - والذي رخص فيها أبو يوسف - رحمه الله تعالى - فقد ذكر الخصاف - رحمه الله تعالى - الحيلة في إسقاط الزكاة وأراد به المنع عن الوجوب لا الإسقاط بعد الوجوب ومشايخنا رحمهم الله تعالى أخذوا بقول محمد - رحمه الله تعالى - دفعا للضرر عن الفقراء فإن الرجل إذا كانت له سائمة لا يعجز أن يستبدل قبل تمام الحول بيوم بجنسها أو بخلاف جنسها فينقطع به حكم الحول أو يهب النصاب من رجل يثق به، ثم يرجع بعد الحول في هبته فيعتبر الحول من وقت الرجوع والقبض ولا يعتبر ما مضى من الحول وكذا في السنة الثانية والثالثة يفعل هكذا فيؤدي إلى إلحاق الضرر بالفقراء."

(کتاب الحیل،فصل ثالث ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۹۱، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں