ایک شخص نے دوسرے کو اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کا وکیل بنایا (زکوٰۃ راشن کی صورت میں تھی)اور اس سے کہا کہ کسی بھی پانچ غیر متعین آدمیوں کو یہ دے دینا ،اس نے وہ زکوٰۃ مدرسے میں لاکر دی ،مدرسے والوں نے بجائے پانچ مستحقین کے ایک مستحق استاد سے تملیک کروانے کے بعد وہ زکوٰۃ کا راشن مدرسے میں استعمال کیا، اسی طرح نو ماہ تک معاملہ چلتا رہا یعنی پانچ مستحقین کے بجائے صرف ایک مستحق سے تملیک کروانے کے بعد وہ راشن مدرسے میں استعمال ہوتا رہا ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مؤکل کی زکوٰۃ ادا ہوگئی ؟اگر نہیں ہوئی تو اب مدرسہ اس کی طرف سے نو ماہ کی زکوٰۃ کیسے ادا کرے ؟اور ادائیگی کی کوئی ایسی صورت ہو جس میں مؤکل کے علم میں لائے بغیر اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہو جائے !کیونکہ اس صورت حال کو مؤکل کے سامنے بیان کرنے میں فساد کا خطرہ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب وکیل نے مؤکل کی جانب سے زکوۃ کی مد میں دیا جانے والا راشن پانچ مستحق افراد کے بجائے ایک عرصے تک ایک مستحق شخص کو دیا ،اور اس مستحق شخص کے مالک بنائے جانے کے بعد اس کی جانب سے وہ راشن مدرسے میں استعمال کیا گیاتو اس سے زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوگئی، اس لیے کہ زکوۃ کی مد میں دیا جانے والا راشن مستحق شخص کو دیاگیا ہے، البتہ چوں کہ مؤکل نے وکیل کو ایک شخص کے بجائے پانچ افراد کو دینے کا کہا تھا اس حکم کی وکیل کی جانب سے خلاف ورزی پائی گئی اور وکیل خیانت کا مرتکب ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہے، آئندہ کے لیےمؤکل سے اجازت لے کر کریں، اجازت کے بغیر حکم کی خلاف ورزی نہ کریں، باقی زکوۃ ادا ہوگئی دوبارہ ادا کرنالازم نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لايضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره."
(كتاب الزكوة، ج:2،ص:269، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100433
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن