بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ اور صدقہ فطر کے نصاب میں فرق


سوال

زکوۃ اور صدقہ فطر کے نصاب میں کیا فرق ہے؟

جواب

صدقہ فطر اور زکات دونوں الگ الگ مستقل مالی عبادتیں ہیں، جس کے لیے الگ الگ نصاب  مقرر ہے،بناء بریں کسی ایک کے ادا کرنے سے دوسرا ادا نہیں ہوگا۔

صدقہ فطر کا نصاب مندرجہ ذیل ہے:

صدقہ فطر ہر اس شخص پر (اپنی طرف سے اور زیرِ کفالت نابالغ اولاد کی طرف سے) لازم ہوتا ہے جو عید الفطر کے دن (یکم شوال کی) صبح صادق کے وقت ضرورتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد اتنے سامان یا مال کا مالک ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو، خواہ وہ مال نقدی، سونا، چاندی یا مالِ تجارت کی صورت میں نہ ہو، اسی طرح اس کے وجوب کے لیے مال کے اوپر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔ 

زکوۃ کا نصاب مندرجہ ذیل ہے:

جب کہ زکوۃ صرف مالِ نامی پر واجب ہوتی ہے، اور مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت، سائمہ جانور ہیں، مذکورہ اموال میں سے کسی ایک کے نصاب تک مال پہنچ جائے یا مختلف اموال موجود ہونے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک نصاب پہنچ جائے اور وہ بنیادی ضرورت سے زائد ہو تو زکوۃ واجب ہوجاتی ہے، اور قمری مہینوں کے اعتبار سے  سال پورا ہوجانے پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔

فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے:

"( الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابًا ملكًا تامًّا وحال عليه الحول".

(كتاب الزكاة، ج:3، ص:460، ط:دارالفكر)

فتاوی عالمگیری(الفتاوی الہندیہ)  میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب الزکوۃ، الباب الثامن في صدقة الفطر ج:1، ص:191، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں