بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات اور قربانی کا نصاب اور فرق


سوال

فرضیتِ  زکات کے لیے مقدارِ  نصاب کیا ہے؟  اور قربانی کرنا کس شخص پر واجب ہے؟ قربانی کے وجوب کے  لیے کتنے مال کا کتنے عرصے سے مالک ہونا ضروری ہے؟

جواب

قربانی واجب ہونے کا نصاب:

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ذمے  میں  واجب الادا اخراجات  اور قرض منہا کرنے کے بعد ضرورت و استعمال سےزائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے، اور ایسے شخص کے لیے زکات لینا بھی جائز نہیں ہے۔

زکوۃ واجب ہونے کا نصاب: 

اور زکات واجب ہونے کے نصاب کی تفصیل یہ ہےکہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فی صد زکات ادا کرنا لازم ہے۔

قربانی اور زکوۃ  واجب ہونے کے نصاب میں فرق:

قربانی اور زکات کے واجب ہونے  کے نصاب میں فرق یہ ہے  کہ زکات صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی۔ اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکات فرض نہیں ہے، جب کہ قربانی اور صدقہ فطر، اور زکات وصولی کے لیے غیرمستحق ہونے کے  نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ  ضرورت و استعمال  سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور ایک ایسے ہی بند پڑا ہوا ہے، اور ضرورت سے زائد ہے تو  قربانی وغیرہ کے نصاب میں اس کو  بھی شامل کیا جائے گا،  جب کہ زکات کے نصاب میں اسے شامل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح جو سامان استعمال میں نہ آتا ہو اس کا بھی یہی حکم ہوگا، دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قربانی واجب ہونےکے لیے اس نصاب پر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے، بلکہ عید الاضحٰی کے تیسرے دن کے غروب سے پہلے بھی صاحبِ نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگا، جب کہ زکات کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے مالِ زکات پر سال گزرنا  ضروری  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)، خانية.

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً".

(کتاب الاضحیۃ، ج:6، ص:312، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب الزکوۃ، الباب الثامن في صدقة الفطر ج:1، ص:191، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212200535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں