بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ اور قربانی کا نصاب


سوال

 نصاب زکوۃ کے حوالے سے راہ نمائی چاہیے، میری زوجہ کے پاس سونا تقریبا 2 تولہ اور کچھ تولہ چاندی زیور کی شکل میں موجود ہے، کیا اس مال پر قربانی اور زکوۃ واجب ہے؟ اور کیا اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ ہے؟

جواب

زکات کے نصاب کی تفصیل یہ ہے: اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب  کی قیمت کے برابر بنتی ہو تو ایسے شخص پر سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا واجب ہے، واضح رہے کہ زکوۃ کا مدارصرف ساڑھے سات تولہ سونے پراس وقت ہے کہ جب کسی اور جنس میں سے کچھ پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زائد کچھ نقد پیسے یا چاندی یا مالِ تجارت بھی ہے  توپھرزکات کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت پرہوگا۔

قربانی کا نصاب:

   جس کے پاس  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو یا کچھ سونا اور کچھ نقدی رقم ہو ،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی   واجب ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی  پر زکوۃ اور قربانی دونوں  واجب ہے، اور نیز زکات کی ادائیگی  اور قربانی شوہر کے ذمہ پر نہیں، البتہ اگر شوہر اپنی خوشی سے بیوی کی اجازت سے زکوۃ ادا کرے یا قربانی کرے تو  زکوۃ اور قربانی صحیح ہوگی اور بیوی کا ذمہ فارغ ہوجائے گا۔

اللباب میں ہے:

"(الزكاة) لغة: الطهارة والنماء، وشرعاً: تمليك جزء مخصوص من مال مخصوص لشخص مخصوث لله تعالى.وهي (واجبة) والمراد بالوجوب الفرض: لأنه لا شبهة فيه. هداية. (على الحر المسلم البالغ العاقل إذا ملك نصاباً) فارغاً عن دين له مطالب وعن حاجته الأصلية نامياً ولو تقديراً (ملكاً تاماً وحال عليه الحول)".

 

(اللباب في شرح الكتاب: كتاب الزكاة 1/ 136، ط. المكتبة العلمية، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب هكذا في فتاوى قاضي خان".

(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر 1/ 191، ط. رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه و أولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً."

(الفتاوى الهندية: كتاب الأضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير، وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه ٥ / ٣٠٢، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں