بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ میں قمری سال کااعتبار ہوتاہے یا شمسی سال کا؟


سوال

 میں نے مارچ 2005 اور دسمبر 2005 میں سونا خریدا تھا،  میں 2006 سے لے کر 2022 تک مارچ اور دسمبر کے مہینوں میں ہی زکات نکالتا آرہا ہوں، دسمبر میں جو سونا خریدا تھا اس كی   زکات اگلے مہینے میں ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں،اب پتا چلا کہ زکات قمری سال کے مہینوں کے مطابق ادا کرنا لازم ہے، تو اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں، پچھلے سالوں سے حساب لگانا شروع کروں یا کیا کروں؟ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعی احکامات میں قمری سال کا اعتبار کیا جاتاہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزے اور حج کی عبادت سے واضح ہے، اسی طرح زکاۃ کی ادائیگی کے وجوب کا تعلق بھی قمری سال سے ہے، نہ کہ شمسی سال سے ، اس لیے کہ شمسی سال قمری سال سے دس يا    گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، نتیجتاً زکات کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتاہے، جو ذمہ میں باقی رہ گئی اس کی ادائیگی ضروری ہے۔

مذكوره بالا تفصيل كے رو سے صورتِ  مسئولہ ميں  سائل نے مذكوره مدت ( 2006 سے  لے كر 2022تك مارچ ،دسمبر)  میں جو زکاۃ ادا کی ہے ،مذکورہ مدت  کے ہرسال کے مذکورہ مہینوں کو قمری سال کے مہینوں  سے دیکھ لے،2005ء سے اب تک جتنے سال  گزرے، ہرسال کم از کم دس دن کم کرکے قمری سال سے حساب کرےاورقمری سال کے پورا ہونے کے وقت جو اس کی مالیت تھی اور شمسی سال کے حساب سے جو زکوۃ ادا کی ہے،اس میں فرق دیکھ لےاوریہ جاننے کی کوشش کرے کہ قمری سال کے آخر میں مال زکوۃ کتناتھا،اگر قمری سال کے اختتام پر مالیت کے حساب سے لازم ہونے والی زکوۃ اور شمسی سال کے حساب سے ادا کی ہوئی زکوۃ میں کوئی فرق ہےیعنی  اگر زکوۃ کم ادا کی ہے تو اس کے بقدر زکوۃ ادا کردےا، اس طرح گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اوراگر مال زکاۃ کی مقدار قمری سال کے آخر میں اتنی ہی تھی، جتنی شمسی سال کے آخر میں تھی تو پھر شمسی سال کے حساب سے ادا کردہ زکاۃ قمری سال کے  لیے کافی ہوگی،البتہ  آئندہ کے لیے قمری سال کاحساب رکھے جو کہ 2005سے 2022 تک کے دوران میں تقریبا ًچھ ماہ پہلے سے پورا ہوجائےگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(وحولها) أي الزكاة (قمري) بحر عن القنية (لا شمسي)."

(کتاب الزکا،ج:2۔ص:294،ط:سعید)

درر الحكام میں ہے:

"(قوله: وشرطه الحولان) قال في القنية: العبرة في الزكاة للحول القمري". 

 (كتاب الزكاة،ج:1،ص:174،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں