بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ میں اپنےوالدکووکیل بنانایاانہیں زکوۃ دینا


سوال

کیا بیٹا اپنے باپ کو  یا بہو اپنے سسر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو کیا بیٹایابہو اپنی زکوۃ کی ادائیگی کےلیے باپ یا سسرکو وکیل مقرر کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ باپ اپنی اولادکویااولاد کی اولادکونیچے تک کسی کوزکوۃ نہیں دےسکتاہےشرعا،اسی طرح اولاداپنے والدین کویاوالدین کے والدین کواوپرتک زکوۃ نہیں دے سکتی۔نیزمیاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے،ان کے علاوہ دیگررشتہ دارایک دوسرے کوزکوۃ دے سکتے ہیں جبکہ وہ مستحق زکوۃ ہوں۔

اس تمہید کی روشنی میں، صورت مسئولہ میں بیٹااپنے باپ کوزکوۃتو نہیں دے سکتاالبتہ  زکوۃ کی ادائیگی کے لیے وکیل بناسکتاہےجبکہ بہواپنے سسرکوزکوۃبھی دے سکتی ہے اگرسسرزکوۃ کامستحق ہےاورزکوۃ کی ادائیگی کے لیےانہیں وکیل بھی بناسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي".

(كتاب الزكوة،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:188،ط:المطبعة الكبری الاميرية ببولاق مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا إباحة...لايصرف إلى بناءنحو مسجد ولا إلى كفن ميت وقضاء دينه...ولاإلى من بينهما ولاد...(قوله: ولاإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هدايةوالولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادة وولادا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب ".

(كتاب الزكوة،باب المصرف،ج:3،ص:341۔344،ط:مكتبہ رشیدیہ باکستان)

وفیہ ایضا:

"ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته تتارخانية".

(كتاب الزكوة،باب المصرف،ج:3،ص:344،ط:مكتبہ رشیدیہ باکستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں