بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گذشتہ سالوں کی زکات حساب کر کے اپنے پاس نوٹ کرنے کے بعد وہی رقم ادا کرنے ہے پھر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے بعد نیا حساب کرنا ضروری نہیں ہے


سوال

میں نے گذشتہ تین سالوں سے اپنے مال تجارت کی زکوۃ ادا نہیں کی تھی ،تو میں نے اس کے متعلق علماء سے رجوع کیا اور طریقہ پوچھا ،ان کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق تینوں سالوں کا  حساب لگاکر میں نے زکوۃ کی رقم نوٹ کر لی اور اس وقت  بآسانی ایک سال کی زکوۃ ادا کردی اب چار ماہ بعد بقیہ دو سالوں کی بھی زکوۃ ادا کر رہا ہوں ،لیکن اب اس مال تجارت کی قیمتوں میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ چار ماہ قبل جو حساب لگایا تھا وتنی  ہی زکوۃ میں  ادا کردوں یا دوبارہ موجودہ قیمت کا حساب لگا کر ادا کرنا ہوگا۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نے جس دن گذشتہ سالوں کی زکوۃ کا حساب کیا تھا ،اپنے پاس نوٹ کیا تھا اور اسی دن سے گذشتہ سالوں کی زکوۃ کی ادائیگی شروع کردی تھی تو سائل گذشتہ سالوں کی زکوۃ ان سالوں کی ادائیگی کا عمل شروع کر دینے والے دن کی قیمتوں کے حساب سے ہی ادا کرے ،نئی قیمتوں کے حساب سے نیا حساب کر کے دینا ضروری نہیں ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما صفة الواجب في أموال التجارة فالواجب فيها ربع عشر العين وهو النصاب في قول أصحابنا، وقال بعض مشايخنا: هذا قول أبي يوسف ومحمد ،وأما على قول أبي حنيفة فالواجب فيها أحد شيئين.أما العين أو القيمة فالمالك بالخيار عند حولان الحول إن شاء أخرج ربع عشر العين وإن شاء أخرج ربع عشر القيمة، وبنوا على بعض مسائل الجامع فيمن كانت له مائتا قفيز حنطة للتجارة قيمتها مائتا درهم فحال عليها الحول فلم يؤد زكاتها حتى تغير سعرها إلى النقصان حتى صارت قيمتها مائة درهم أو إلى الزيادة حتى صارت قيمتها أربعمائة درهم، إن على قول أبي حنيفة: وإن أدى من عينها يؤدي خمسة أقفزة في الزيادة والنقصان جميعا؛ لأنه تبين أنه الواجب من الأصل فإن أدى القيمة يؤدي خمسة دراهم في الزيادة والنقصان جميعا؛ لأنه تبين أنها هي الواجبة يوم الحول.وعند أبي يوسف ومحمد إن أدى من عينها يؤدي خمسة أقفزة في الزيادة والنقصان جميعا، كما قال أبو حنيفة: وإن أدى من القيمة يؤدي في النقصان درهمين ونصفا وفي الزيادة عشرة دراهم؛ لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا؛ لأن المذهب عندهم أنه إذا هلك النصاب بعد الحول تسقط الزكاة سواء كان من السوائم أو من أموال التجارة.ولو كان الواجب أحدهما غير عين عند أبي حنيفة لتعينت القيمة عند هلاك العين على ما هو الأصل في التخيير بين شيئين إذا هلك أحدهما أنه يتعين الآخر"

(کتاب الزکوۃ ،فصل اموال التجارۃ،ج:2،ص:21،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں