بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات میں تجارتی مال کا مطلب


سوال

میں  کراکری کا کاروبار کرتا ہوں اور میں نے ایک گاڑی تجارت کی نیت سے خریدی ہے؛ تاکہ کراکری  کا  سامان لے جانے اور لے آنے میں آسانی ہو، کیا اس پر زکات ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ  زکات  کے باب میں  کسی چیز کو تجارت کی نیت  سے خریدنے کا مطلب  یہ ہے کہ اس چیز کو آگے بیچنے کی نیت سے خریدا جائے تو اس صورت میں اس پر شرعًا زکات  واجب ہوتی ہے ، لیکن اگر   اپنے تجارتی کام میں  استعمال  کے لیے کوئی  چیز  خریدی  جائے تو  اس صورت میں وہ تجارتی نہیں  کہلائے گی اور اس پر شرعًا  زکات نہیں آئے گی ؛    لہذا  بصورتِ مسئولہ آپ نے مذکورہ گاڑی اگر اپنے تجارتی سامان کے نقل وحمل کے  لیے لی ہے، آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی تو اس صورت میں یہ گاڑی  زکات کے باب میں  مالِ  تجارت  شمار نہیں ہوگی اور اس پر  زکات واجب نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 272):

"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں