بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی قضا کا حکم


سوال

میں ایک پیدائشی جسمانی معذور ہوں ،میں مزدوری والا کام بالکل نہیں کر سکتا، اور نارمل کام کرتے ہوئے بھی مجھے پرابلم (مسائل)ہوتی ہے ،میں غسل بھی خود نہیں کر سکتا ،کچھ میں نے چھوٹا موٹا کام کر کے ،اور کچھ لوگوں سے زکوۃ خیرات اور فطرانہ لے کر پیسہ جمع کر کے 17 سال بعد 70 لاکھ کا مکان لیا، جس کا کرایہ 26 ہزار آتا ہے، کیا مجھے معذور کو زکوۃ فرض ہے، حالاں کہ میں خود زکوۃ لیتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ زکات کی ادائیگی کادار ومدار صاحبِ نصاب، اور  مال کے حوائج اصلیہ سے  فارغ  ہونے پر ہے،اگر کوئی شخص صاحب نصاب ہے،او رمال حوائجِ اصلیہ سے زائد ہے،تو اس پر زکات واجب ہوگی،چاہے وہ تندرست ہو یا بیمار،زکات کے وجوب کا دار ومدار صحت اور علالت پر موقوف نہیں ۔

صورتِ  مسئولہ  میں گھرکے مذکورہ کرائےمیں جو نصاب سے كم يا نصاب ميں شامل نه هو  تو اس پر  زکات واجب نہیں ہوگی،البتہ سائل نےجو70 لاکھ کی رقم 17 سال کے عرصہ میں جمع کی ہے،تو جس سال مذکورہ رقم بقدرِ نصاب (ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی )ہوگئی تھی،اور سائل صاحب نصاب ہوگیاتھا،اس سال کے پورا ہونے پر مذکورہ رقم میں سے ڈھائی فیصد زکات کی ادائیگی واجب ہوگئی تھی،جو کہ سائل نے اس وقت نہیں  کی،لہذا اب اس واجب شدہ زکات کی رقم   کی ادائیگی  سائل پر واجب ہے،اور   جتنا عرصہ یا سال سائل صاحبِ  نصاب رہا ہے،ان سالوں کی زکات کی ادائیگی  سائل پر واجب ہے،اورصاحبِ  نصاب ہوجانے کے بعد سائل کا زکات لیناجائز نہیں تھا،صاحبِ نصاب  ہونے کے بعد مکان لینے تک جن لوگوں نے زکات دی ہے،انہیں مطلع کرنا ضروری ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب."

 (كتاب الزكاة، ج: 2ص:259 ط: سعید)

تبین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (وفي عروض تجارة بلغت نصاب ورق أو ذهب) يعني ‌في ‌عروض ‌التجارة يجب ربع العشر إذا بلغت قيمتها من الذهب أو الفضة نصابا ويعتبر فيهما الأنفع أيهما كان أنفع للمساكين وهو معطوف على قوله في أول الباب في مائتي درهم وعشرين دينارا ربع العشر واعتبار الأنفع مذهب أبي حنيفة ومعناه يقوم بما يبلغ نصابا إن كان يبلغ بأحدهما ولا يبلغ بالآخر احتياطا لحق الفقراء وفي الأصل خيره."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:1 ص:279 ط: دار الکتب الإسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں