کیا زکات کی رقم سے قرآن پاک خرید کر مسجد مدرسے میں رکھنا جائز ہے ؟
کیا قرآن پاک کی ترویج واشاعت کے لیے مدرسے کے غریب طلباء وطالبات کومالک بنا کر زکات کی رقم سے قرآن پاک دیے جا سکتے ہیں ؟
کیا شادی کے موقع پرتحفے کے طور پر زکات کی رقم سے قرآن پاک دیا جا سکتا ہے؟
زکات کی رقم سے قرآن پاک خرید کر مسجد یا مدرسے میں رکھنا جائز نہیں، اس سے زکات ادا نہیں ہو گی۔
اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکات کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکات کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکات کی رقم سےقرآن پاک خرید کر دینا درست ہے اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکات کی رقم سے قرآن پاک خرید کر دینا جائز نہ ہوگا۔
شادی کے موقع پرمستحقِ زکات لڑکی کو زکات کی رقم سے قرآن پاک خرید کر تحفے میں دیا جا سکتا ہے، یعنی اسے زیورات کا مالک بنانے سے پہلے پہلے۔ اسی طرح دلہا مستحقِ زکات ہو تو زکات کی رقم سے مصحف خرید کر اسے دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."
"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."
( کتاب الزکوۃ ، باب مصرف الزکوۃ والعشر،ج:2، ص:356،ط: سعید)
فتاوى ہندیہ میں ہے:
" أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي."
"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،ج:1، ص: 171،170، ط:دار الفکر)
فتاوى ہندیہ میں ہے:
"و لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، و كذا القناطر، و السقايات، و إصلاح الطرقات، و كري الأنهار، و الحج، و الجهاد، و كل ما لا تمليك فيه، و لايجوز أن يكفن بها ميت، و لايقضى بها دين الميت كذا في التبيين، و لايشترى بها عبد يعتق، و لايدفع إلى أصله، و إن علا، و فرعه، و إن سفل، كذا في الكافي."
( کتاب الزکوۃ ،الباب السابع فی المصارف،ج:1، ص:188، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102344
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن