بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کس پر واجب ہے؟


سوال

فاطمہ ایک 10 سال کی لڑکی ہے اور اس کے پاس 10000 (دس ہزار روپے ہیں) اور نہ سونا ہے نہ چاندی تو کیا اس پر زکات واجب ہے؟ اور زکات کیسے اور کس طرح واجب ہوتی ہے؟ مکمل تفصیل مطلوب ہے،  جیسے کتنی چاندی ہو اور کتنا سونا ہو اور کتنی رقم پیسہ ہو؟

جواب

وجوبِ زکات کے لیے صاحبِ نصاب ہونا اور زکات کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے اس پر سال گزرنا شرعاً ضروری ہے،  جس روز کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) جمع ہوجائے اس دن سے وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار ہوگا اور اسی دن سے سال کا حساب بھی کیا جائے گا، اور قمری حساب سے سال پورا ہونے پر اسی تاریخ کے اعتبار سے زکات  واجب ہوگی۔

زکات کا نصاب یہ ہے:

اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو (یعنی نقدی، چاندی یا مالِ تجارت بالکل بھی نہ ہو) تو ساڑھے سات تولہ سونا۔ اور اگر چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی۔ نقدی یا مالِ تجارت ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، یا سونے کے ساتھ کچھ نقدی یا چاندی یا مالِ تجارت ہو یا سب کا مجموعی اتنا ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو اور وہ بنیادی ضرورت سے زائد ہو تو اس پر جب سال گزرجائے تو زکات  کی ادائیگی فرض ہو جاتی ہے۔

واضح ہوکہ ساڑھے سات تولہ سونے پر زکات کا مدار اس وقت ہے کہ جب ملکیت میں صرف سونا ہو، اس کے علاوہ کسی اور جنس میں سے کوئی مال پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتو پھر زکات  کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پر ہوگا۔  یعنی اگرکسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہے اوراس کے علاوہ نقدرقم، چاندی یاسامان تجارت وغیرہ بالکل نہ ہوتو اس شخص پر زکات فرض نہیں ہوگی، لیکن ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ ساتھ کسی کے پاس چاندی یا نقد رقم یاسامانِ تجارت موجود ہو تو پھر اس کے لیے نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہے، لہٰذا اگر اس سونے اور باقی اشیاء کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہو تواس پرزکات فرض ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچی اگر بالغہ نہیں ہے تو اس پر بہرصورت زکات واجب نہیں ہوگی، خواہ وہ صاحبِ نصاب بن جائے، اور اگر بالغہ ہے تو بھی مذکورہ صورت میں چوں کہ وہ صاحبِ نصاب نہیں ہے؛ لہٰذا اس پر زکات لازم نہ ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں