بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کوساقط کرنے کے لیے حیلہ اختیار کرنے کا حکم


سوال

  میں اپنے علاقہ کے علماء کے تین جماعتوں کے بارے میں ایک سوال پوچھ رہا ہوں   کہ ان میں سے کون سا اپنے کام اور طریقہ کار میں صحیح ہے  ،ہمارے  علاقے ایران اور افغانستان میں بعض علماء کے پاس  بہت زیادہ مال و دولت ہے، جس کی رقم کئی لاکھ اور لاکھوں تک پہنچتی ہے، لیکن پھر بھی وہ زکوٰۃ کے حقدار بننا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے وہ ایک حیلہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی تمام دولت اپنی بیویوں کو دے دیتے ہیں، اور وہ اپنی بیویوں کو جائیداد پر قبضہ کرنے کا پورا اختیار دیتے ہیں اور وہ یہ جائیداد دے کر رقم کے مقدار بھی بتا تے ہیں اور ان علماء کی رقم بینک میں ہے،  (حالانکہ ان میں سے بعض عورتوں کو پتہ بھی نہیں ہے کہ وه رقم ابھی کہاں ہے  صرف یہ عورتیں اس کے لیے پیسے کو قبول کرتی ہیں تاکہ ان کے شوہر زکوٰۃ کے حقدار ہوں ) ۔ اور جب زکوٰۃ کا وقت آتا ہے تو لوگوں سے زکوٰۃ لیتے ہیں (کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے خیالوں میں غریب بنا رکھا ہے)۔ اور دوسری جماعت علماء  میں سے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے    وہ یہ ہے کہ یہ گروہ بھی کئی لاکھ کا مالک ہے لیکن پھر بھی وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ میں غریبوں کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا وکیل ہوں جب وہ زکوٰۃ کی رقم اچھی طرح جمع کر لیتا ہے، تو وہ ایک طالب علم کو اپنے گھر بلاتا ہے اور اسے تمام رقم قبول کرنے کے لیے دیتا ہے، پھر وہ اسے دوبارہ اپنے لیے حلال کرنے کے لیے وہ پیسے لے لیتا ہے اور کچھ اس طالب علم کو بھی دے دیتا ہے اور  تیسری جماعت علماء کا یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی بنیادی ضروریات میں سے صرف 200 درہم اضافی رقم ہے اور ان کے علاوه کچھ نہیں ہے.اور وہ یہ حیلہ بھی اپناتے ہیں کہ وہ اپنی تمام جائیداد (جو 200 درہم ہے) اپنی بیویوں کو دے دیتے ہیں اور انہیں پورا اختیار دیتے ہیں.اور اس کے بعد لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ علماء کی کون سی جماعت صحیح ہے؟ اور کیا ان کو لوگوں سے زکوٰۃ لینا درست ہے؟ اور اگر کسی کو معلوم ہو کہ یہ علماء ایسی حیلہ اختیار کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کو زکوٰۃ دیتے ہیں، حالانکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے غریب ہیں: کیا اس شخص کی زکوٰۃ ادا ہو چکی ہے، یا اسے دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ علماء کے لیے اس طرح کا حیلہ اختیار کرنا درست ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ جو شخص  مالک نصاب ہویعنی (ساڑھے ساتھ تولہ سونا ،یا ساڑھے باون تولہ چاندی ،یا   اس کے برابر ضرورت سے زیادہ رقم یا سامان ِتجارت کا مالک ہو)اس کے  لیے زکوۃ کا لینا ناجائز ہے ،اور جس شخص کے پاس   اتنی مالیت نہیں ہے اور نہ و ہ سیّد  یا عباسی ہے اس کے  لیے زکوۃ  کا مال  لینا  جائز ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں پہلی جماعت والے اگر واقعی ایسا ہی ہو کہ مالک نصاب ہو کر   زکوۃ سے بچنے کے لیے ایسے حیلے  اختیار کرتے ہیں کہ اپنی دولت  اپنی بیویوں  کو دے دیتے  ہیں  ،اور ان کو      اپنی تمام جائیداد  پر  پورا قبضہ کرنے کا  اختیار  دیتے  ہیں  تاکہ زکوۃ کامسحق  ہوکر لوگوں سے زکوۃ  وصول کیاجائے    اس صورت میں    زکوۃ کے مستحق تو بن  جائیں گے، لیکن زکوۃ لینے کے  لیے ایسے  حیلے اختیار کرنا جائز نہیں ہے ،  بلکہ  مکروہ تحریمی  ہے،اور اللہ تعالی کو سب کچھ معلوم ہے اس کو دھوکا  نہیں دیاجاسکتا ۔ اور اگر وہ اپنی بیویوں کو  مال کی تفصیلات بتا کر صرف زبانی  طور پر  ان کی ملکیت میں دیتے ہیں، رقم ان کے قبضے میں نہیں دیتے تو  بیویاں اس رقم کی مالک نہیں بنیں گی، بلکہ وہی مالک ہوں گے، لہٰذا اگر نصاب کے بقدر رقم ان کی ملکیت میں موجود  رہتی ہو تو  وہ زکوٰۃ کے مستحق بھی نہیں بنیں گے۔

اور دوسری جماعت والے اگر واقعی مالک نصاب ہوکرلوگوں سے زکوۃ وصول کرتے ہیں ،اور       اپنے آپ        کو        لوگوں کو دھوکا  دینے کے  لیے غریبوں  کی طرف سے  زکوۃ کی وصولی کا وکیل    ظاہر کرتے ہیں  اور اس میں حیلہ کرکے خود لیتے ہیں اور غریبوں کو پورا پورا حق  نہیں دیتے  ہیں،تو  ایسے حیلے  اختیار کرنا زکوۃ کے مستحق بننے کے  لیے ناجائز اور حرام ہے۔

اور تیسری جماعت    والے بھی  زکوۃ سے بچنے کے  لیے اگر ایسے حیلے اختیار کرتے ہیں  تو  یہ  ناجائز ہے ،اور اس سے بچنا ضروری ہے۔

نیز اگر کسی نے ان کو اپنی تحقیق    یا ظاہرِحال کے مطابق زکوۃ کے مستحق  سمجھ کر زکات کی رقم دے دی ،اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مالدار  تھے تو   دوبارہ زکوۃ ادا کرنے  کی ضرور ت  نہیں ہے،لیکن  جن لوگوں کو  ان کا مالدار ہونا معلوم  ہے پھر بھی  جان بوجھ کر  ان کو زکات  دیتے ہیں  تو ان           لوگوں   کی زکات ادا  نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے  :  زکوۃ سے بچنے کے لئے  مستقل طورپر  ایسے حیلے  اختیار  کرنا  اور مال پر مال جمع کرتے رہنا غضبِ  الہی کو دعوت دینا ہے، حالاں کہ زکوۃ  ادا کرنے سے  باقی مال میں برکت  آتی  ہے اور مال پاک ہوجاتا ہے ،لہذا ایسے حیلے اختیار کرنے سے دنیا میں تو زکوۃ سے بچ جایئں گے  لیکن آخرت میں اس پر مواخذہ ہوگا۔غرض  کہ سوال میں ذکرکردہ تینوں طریقے درست نہیں  ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الغنى أنواع ثلاثة: غنى تجب به الزكاة، وغنى يحرم به أخذ الصدقة وقبولها ولا تجب به الزكاة، وغنى يحرم به السؤال ولا يحرم به الأخذ أما الغنى الذي تجب به الزكاة فهو أن يملك نصابا من المال النامي الفاضل عن الحاجة الأصلية.

وأما الغنى الذي يحرم به أخذ الصدقة وقبولها فهو الذي تجب به صدقة الفطر والأضحية وهو أن يملك من الأموال التي لا تجب فيها الزكاة ما يفضل عن حاجته وتبلغ قيمة الفاضل مائتي درهم من الثياب والفرش والدور والحوانيت والدواب والخدم زيادة على ما يحتاج إليه كل ذلك للابتذال والاستعمال لا للتجارة والإسامة، فإذا فضل من ذلك ما يبلغ قيمته مائتي درهم وجب عليه صدقة الفطر والأضحية وحرم عليه أخذ الصدقة، ثم قدر الحاجة ما ذكره الكرخي في مختصره فقال لا بأس بأن يعطى من الزكاة من له مسكن وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله فإن كان له فضل عن ذلك ما يبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة لما روي عن الحسن البصري أنه قال كانوا يعطون الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من الفرس والسلاح والخدم والدار."

(کتاب الزکوۃ ،فصل  الذی یرجع الی المؤدی ،48/2،ط،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال   علمائنا - رحمهم الله تعالى - أن ‌كل ‌حيلة ‌يحتال بها الرجل لإبطال حق الغير أو لإدخال شبهة فيه أو لتمويه باطل فهي مكروهة... قال الشيخ الإمام الأجل شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - الذي كرهها محمد بن الحسن رحمه الله والذي رخص فيها أبو يوسف - رحمه الله تعالى - فقد ذكر الخصاف - رحمه الله تعالى - الحيلة في إسقاط الزكاة وأراد به المنع عن الوجوب لا الإسقاط بعد الوجوب ومشايخنا رحمهم الله تعالى أخذوا بقول محمد - رحمه الله تعالى - دفعا للضرر عن الفقراء فإن الرجل إذا كانت له سائمة لا يعجز أن يستبدل قبل تمام الحول بيوم بجنسها أو بخلاف جنسها فينقطع به حكم الحول أو يهب النصاب من رجل يثق به، ثم يرجع بعد الحول في هبته فيعتبر الحول من وقت الرجوع والقبض ولا يعتبر ما مضى من الحول وكذا في السنة الثانية والثالثة يفعل هكذا فيؤدي إلى إلحاق الضرر بالفقراء."

(کتاب الحیل ،390/6،ط، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا فعله حيلة لدفع الوجوب كأن استبدل نصاب السائمة بآخر أو أخرجه عن ملكه ثم أدخله فيه، قال أبو يوسف لا يكره؛ لأنه امتناع عن الوجوب لا إبطال حق الغير.وفي المحيط أنه الأصح.وقال محمد: يكره، واختاره الشيخ حميد الدين الضرير؛ لأن فيه إضرارا بالفقراء وإبطال حقهم مآلا، وكذا الخلاف في حيلة دفع الشفعة قبل وجوبها  .وقيل الفتوى في الشفعة على قول أبي يوسف، وفي الزكاة على قول محمد، وهذا تفصيل حسن شرح درر البحار۔"

(کتاب الزکوۃ ،باب زکوۃ الغنم،248/2،ط ،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں  ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه."

(کتاب الزکوۃ ،الباب السابع فی المصارف،189/1،ط، دارالفکر)

 ہدایہ میں ہے:

"ولا ‌تكره ‌الحيلة في إسقاط الشفعة عند أبي يوسف وتكره عند محمد" لأن الشفعة إنما وجبت لدفع الضرر، ولو أبحنا الحيلة ما دفعناه ولأبي يوسف أنه منع عن إثبات الحق فلا يعد ضررا، وعلى هذا الخلاف الحيلة في إسقاط الزكاة."

(باب ما یبطل به الشفعة،323/4،ط،بیروت)

فتاوی محمودیہ  میں ہے :

"سوال:کوئی شخص سال آنے پراپنامال لڑکے کوہبہ کردے،پھرجب دوسراسال آنے لگے توبیٹاباپ کو ہبہ کردے،توکیاایساکرناجائزہے،اورکیایہ بھی حیلہ بازی ہے۔

جواب: اگراس سے مقصود یہ ہو کہ زکوۃ فرض نہ ہوتوایساکرنامکروہ ہے۔"

(340/9،ط،ادارۃ الفاروق کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں