بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کتنے مال میں لازم ہوتی ہے؟


سوال

مجھے اپنی زکاۃ معلوم کرنی تھی؟

جواب

واضح رہے کہ جس عاقل،بالغ شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ضروریات سے زائد نقدی یا مالِ تجارت موجود ہو، یا سونے کے ساتھ نقدی یا چاندی یا مالِ تجارت ہو  (الغرض مذکورہ اموال میں سے کوئی دو یا اس سے زائد ملکیت میں ہوں) اور اس کی مجموعی مالیت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو، اور اس پر ایک سال گزرگیا ہو تو اس میں ڈھائی فیصد(چالیسواں حصہ)بطورِ زکاۃ نکالنافرض ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اپنی تمام ملکیت کاحساب نکال کردیکھیں،چناں چہ اگر ان کے پاس نقدی اور مالِ تجارت ضروریات(قرض اور دیگر اخراجات وغیرہ) منہاکرنے کےبعدنصاب کے بقدر موجود ہے،اور اس میں سال گزرچکا ہےتو اس کا ڈھائی فیصد(چالیسواں حصہ)بطورِ زکاۃ کسی مستحقِ زکاۃ فقیریا مسکین جس کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود نہ ہو ٗ کو دے دیں۔

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"(ومنها العقل والبلوغ) فليس الزكاة على صبي ومجنون إذا وجد منه الجنون في السنة كلها هكذا في الجوهرة النيرة ... (ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه هكذا في العيني شرح الكنز ."

(ص:١٧٢،ج:١،کتاب الزكاة،الباب الأول،ط:دار الفكر،بيروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"أما الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له الصنفان جميعا، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كتب كتاب الصدقات لعمرو بن حزم ذكر فيه الفضة ليس فيها صدقة حتى تبلغ مائتي درهم فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم."

(ص:١٦،ج:٢،کتاب الزكاة،فصل الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة،ط:دار الكتب العلمية)

الفقه الإسلامي وأدلته  میں ہے:

"مستحقو الزكاة هم ثمانية أصناف: وهم الفقراء والمساكين والعاملون عليها والمؤلفة قلوبهم، وفي الرقاب، والغارمون، وفي سبيل الله، وابن السبيل."

(ص:١٩٥١،ج:١٩٥١،القسم الأول،الباب الرابع،الفصل الأول،ط:دار الفكر،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں