زکات میں قیمت فروخت کا اعتبار ہے، لیکن بازار میں دکانداروں کے ہاں قیمت فروخت مختلف ہوتی ہے، مثلاً میڈیسن کا ایک پیک330پر خریدا ہے، جب پیک پر 397 لکھا ہوا ہے تو عام دکاندار اس کو 395 پر فروخت کرتے ہیں اور بعض دکاندار 10%رعایت کے وجہ سے 350پر فروخت کرتے ہیں ، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ بازار کی عام قیمت دیکھ کر اس قیمت کے اعتبار سے زکات دی جائے، یہاں پر یہ شخص 10%رعایت کی وجہ سے 350پر فروخت کرتا ہے ،تو آیا یہ شخص بازار کی عام قیمت جو 395ہے اس قیمت کے اعتبار سے زکات دے یا اپنے فروخت شدہ قیمت 350کے اعتبار سے زکات دے ۔
صورت مسئولہ میں سامانِ تجارت کی زکاۃ اس سامان کی قیمتِ فروخت کے حساب سے واجب ہوگی، یعنی اس سامان کی موجودہ بازاری قیمت (مارکیٹ ریٹ) پر واجب ہوگی۔ مارکیٹ ریٹ سے مراد اس سامان کی متوسط قیمت ہے۔ جو مال جس دام پر فروخت کردیا جائے اور وہ رقم محفوظ ہو تو زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ ملاکر زکاۃ ادا کی جائے گی، اور جو مال فروخت نہ ہوا ہو اس کی قیمت اسی بازار میں رائج قیمت کو دیکھ کر لگائی جائے گی۔لہذا جس قیمت پر دکان دار نے فروخت کی ہے اسی قیمت کے حساب سے زکات دینی ہو گی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:
''وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح''.
(كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، ج: ۲، صفحہ: ۲۸۶، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100171
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن