بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ کس قسم کے مال پرفرض ہے؟


سوال

کس قسم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب

زکاۃ صرف اس مال پر فرض ہے جو عادۃً بڑھتاہو، (خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً)  جیسے مالِ تجارت یا مویشی یا سونا چاندی اور نقدی،  سونا، چاندی  اور نقدی کو اسلام نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے ؛ اس لیے سونا چاندی  پر بہرصورت زکاۃ لازم ہے، چاہے  کوئی زیور بنا کر رکھے یا ٹکڑے بناکر رکھے، ہر حال میں وہ بڑھنے والا مال ہے؛ اس لیے اگر وہ نصاب کے برابر ہو  اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکاۃ فرض ہے، ان چار قسموں (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) کے اموال کے علاوہ  ذاتی مکان، دکان ، گاڑی، برتن ، فرنیچر اور دوسرے گھریلو سامان ، ملوں  اور کارخانوں کی مشینری ، اور جواہرات وغیرہ  اگر تجارت کے لیے  نہیں ہیں تو ان پر زکاۃ فرض نہیں ہے، ہاں اگر ان میں سے کوئی  ایک بھی چیز  فروخت کرنے کی نیت سے خریدی اور اس کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے  تو سال گزرنے پر  اس کی  زکاۃ فرض ہوگی۔

بدائع الصنائع ميں هے:

"(ومنها) ‌كون ‌المال ناميا؛ لأن معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل إلا من المال النامي ولسنا نعني به حقيقة النماء؛ لأن ذلك غير معتبر وإنما نعني به ‌كون ‌المال معدا للاستنماء بالتجارة أو بالإسامة؛ لأن الإسامة سبب لحصول الدر والنسل والسمن، والتجارة سبب لحصول الربح فيقام السبب مقام المسبب...........والتجارة في أموال التجارة، إلا أن الإعداد للتجارة في الأثمان المطلقة من الذهب والفضة ثابت بأصل الخلقة؛ لأنها لا تصلح للانتفاع بأعيانها في دفع الحوائج الأصلية فلا حاجة إلى الإعداد من العبد للتجارة بالنية، إذ النية للتعيين وهي متعينة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى التعيين بالنية فتجب الزكاة فيها، نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة."

(بدائع الصنائع ،كتاب الزكاة ، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال 2/ 11ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسبب افتراضها ملك نصاب حولي ... فارغ عن حاجته الأصلیة؛ لأن المشغول بها کالمعدوم، وفسره ابن ملك بما یدفع عنه الهلاك تحقیقاً کثیابه کالنفقة و دور السکنیٰ وآلات الحرب والثیاب والمحتاج إلیها لدفع الحر أو البرد أو تقدیراً کالدین وآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الرکوب وکتب العلم لأهلها، فإذا کان له دراهم مستحقة بصرفها إلی تلك الحوائج صارت کالمعدومة".

(الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الزکاۃ  3/ 174-179 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں