بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کس پر واجب ہے؟


سوال

میرے پاس ایک مہنگی گاڑی ہے،جس کی قیمت 75 لاکھ روپے ہے،اور گھر بھی اپنا ہے،اور نقد رقم نہیں ہے،اور گاڑی بھی گھر کے استعمال کے لیے ہے ۔

تو کیا مجھ پر زکوۃ فرض ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ جو مسلمان عاقل بالغ ہو ،اور اس  کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو )  یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور  وہ شخص مقروض بھی  نہ ہوتو ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکات واجب ہوتی ہے،اور اگر کسی کی ملکیت میں ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال تجارت ،سونا ، چاندی یا کیش رقم انفرادی یا اجتماعی طور پر  موجود نہ ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں  سائل کا رہائشی مکان اور استعمال کی گاڑی ضروریاتِ زندگی میں داخل ہے ،لہذا سائل پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے:

"عن ‌علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض أول هذا الحديث قال: «‌فإذا ‌كانت ‌لك ‌مائتا ‌درهم ‌وحال ‌عليها ‌الحول ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء يعني في الذهب حتى تكون لك عشرون دينارا، فإذا كانت لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار، فما زاد فبحساب ذلك قال: فلا أدري: أعلي يقول: فبحساب ذلك أو رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول» إلا أن جريرا، قال ابن وهب: يزيد في الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول."

(سنن أبئ داؤد،كتاب الزكوة ،باب في زكوة السائمة، ج: 2، ص: 10، ط: المطبعة الأنصارية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و منها كون المال نصابا... و منها الملك التام و منها فراغ المال عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى و ثياب البدن و أثاث المنازل و دواب الركوب و عبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكوة .... ومنها الفراغ عن الدين.... ومنها كون النصاب ناميا."

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، ج: 2، ص: 264، ط: سعيد)

وفيه أيضا"

"و سببه أي سبب افتراضها ملك نصاب حولي نسبة للحول لحولانه عليه تام."

(كتاب الزكوة، ج: 2، :ص 259، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:
 
"ومنها الملك التام هو ما اجتمع فيه الملك و اليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون المك كملك المكاتب و المديون لاتجب فيه الزكوة."

( کتاب الزکوٰۃ، الباب الأول فی تفسیرہا وصفتها وشرائطها، ج: 1، :ص: 172، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں