بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاة کس کس چیز پر ہے؟


سوال

زکاة کس کس چیز پر ہے؟

جواب

شریعت کی طرف سے ہر قسم کے مال پر زکات واجب نہیں ہوتی، بلکہ صرف ان مالوں میں زکات واجب  ہوتی ہے جن میں بڑھنے کی صلاحیت ہو اور یہ پانچ قسم  کے اَموال ہیں:

  1. سونا
  2. چاندی
  3. نقدی
  4. مالِ تجارت
  5. مویشی

 اور  مذکورہ اموال میں  بھی مطلقاً زکات واجب نہیں ہوتی، یعنی یہ اموال جتنی مقدار میں بھی ہوں ان پر زکات واجب ہو، ایسا نہیں ہے، بلکہ ان پر زکات واجب ہونے کے لیے مخصوص نصاب ہے، اگر نصاب کے بقدر مال کسی عاقل بالغ مسلمان کی ملکیت میں ہو  اور اس پرقمری اعتبار سے سال گزر جائے تو اس پر ڈھائی فیصد  مال بطورِ زکات  ادا کرنا واجب ہوتاہے۔

زکاۃ کا نصاب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا صرف نقدی ہو تو بنیادی ضرورت سے زائد اتنی نقدی جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا صرف مالِ تجارت ہو اور اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا مذکورہ چار اموال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) میں سے کوئی دو طرح کے مال یا تین یا چاروں موجود ہوں اور ان کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہے۔

مویشی (اونٹ، گائے، بکری)  میں زکات واجب ہونے کے کچھ الگ شرائط واحکام  ہیں،اور  ہر ایک کا الگ الگ نصاب ہیں، جس کی تفصیل طوالت کی وجہ سے یہاں ذکر نہیں کی گئی ۔ تفصیل کےلیے  درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

مویشیوں کی زکاۃ کا نصاب

النتف في الفتاوى للسعدی میں ہے:

أما الزكاة ففي ثلاثة اشياء: الذهب والفضة ومتاع التجارة وهو ربع العشر ... وأما التي في المال احدها النصاب الكامل ونصاب الذهب عشرون مثقالا ،  ونصاب الفضة مائتا درهم ، ونصاب متاع التجارة اذا بلغ قيمته مائتي درهم او عشرون مثقالا من الذهب.

(النتف في الفتاوى للسعدي: كتاب الزكاة (1/ 167)،ط. دار الفرقان / مؤسسة الرسالة، سنة النشر 1404 - 1984)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص میں ہے:

(وليس في أقل من عشرين مثقالًا من الذهب، ولا في أقل من مائتي درهم من الورق، صدقة، فإذا بلغ الذهب عشرين مثقالًا، والورق مائتي درهم: ففيه ربع العشر بعد أن يحول عليه الحول، وصاحبه حر بالغ عاقل مسلم لا دين عليه).

(شرح مختصر الطحاوي للجصاص: كتاب الزكاة، باب زكاة الذهب والورق (2/ 305)،ط. دار البشائر الإسلامية - ودار السراج، الطبعة: الأولى 1431 هـ - 2010 م)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين خلقي، وفعلي هكذا في التبيين فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة ثم نية التجارة قد تكون صريحا وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض.....(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، 

(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب الاول في تفسير الزكاة (1/ 174)،ط. رشيديه)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں