بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جا سکتی ہے؟


سوال

1) ----زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جا سکتی ہے؟ 2)--- کیا زکوٰۃ مدرسے کو دی جا سکتی ہے؟3)----- کیا زکوٰۃ مسجد کے  امام کو دی جا سکتی ہے؟

جواب

1۔۔۔۔قرآن کریم میں ہے: "إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ"
ترجمہ:زکوۃ جو  ہے سووہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا،  اور زکوۃ کے کام پر جانے والوں کا، اور جن کا دل پرچانا منظور ہے، اور گردنوں کے چھڑانے میں اور جو تاوان بھریں، اور اللہ تعالی کے  رستہ میں اور راہ کے مسافرکو، ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا، اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، حکمت والا ہے۔( ترجمہ از تفسیر عثمانی)

اس آیت میں زکوة کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں:

1------فقیر، فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

2-----مسکین، مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

3-----عامل، عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔ (لیکن آج کل یہ متروک ہے اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے)۔

4۔۔۔مؤلفۃ قلوبہم، یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لیے ان کو زکوۃ دیا جاتا تھا۔ لیکن غلبہ اسلام کے بعد اس کی علت نہیں رہی ، یا یہ منسوخ ہوا۔

5------رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔

6------غارم، غارم سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

7-----فی سبیل اللہ، فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں: مثلاً کوئی مجاہد جہاد کے لیے جانا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس سواری ، زادراہ اور اسلحہ وغیرہ نہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

یاکوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں ہے، اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، مگر اسے حج کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔

8-----ابن السبیل، ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو،یا طالبِ علم علم دین پڑھنا چاہتا ہے، اسے بھی زکوة دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہِ خدا میں دینا ہے۔

"باب المصرف أي: مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي: دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.، (ومسكين من لا شيء له) على المذهب؛ لقوله تعالى {أو مسكينا ذا متربة} [البلد: 16]- وآية السفينة للترحم، (وعامل) يعم الساعي والعاشر (فيعطى) ولو غنيا لا هاشميا ؛ لأنه فرغ نفسه لهذا العمل ، فيحتاج إلى الكفاية ، والغنى لا يمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل بحر عن البدائع،  ..... (بقدر عمله)ما يكفيه وأعوانه بالوسط لكن لا يزاد على نصف ما يقبضه. (ومكاتب) لغير هاشمي، ولو عجز حل لمولاه ولو غنيا كفقير استغنى وابن سبيل وصل لماله.وسكت عن المؤلفة قلوبهم لسقوطهم إما بزوال العلة أو نسخ بقوله - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ في آخر الأمر «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» (ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير. (وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة)،  وقيل: الحاج، وقيل: طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب وثمرة الاختلاف في نحو الأوقاف، (وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه)ومنه ما لو كان ماله مؤجلا أو على غائب أو معسر أو جاحد ولو له بينة في الأصح. (يصرف) المزكى (إلى كلهم أو إلى بعضهم) ".

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة 2/ 339، 340، 341، 342،  343، 344)، ط. سعيد)

2۔۔۔۔۔ اگر مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ بالغ  مستحق ہوں،  یا مستحق والدین کے نابالغ  بچےہوں  تو ایسے مدرسہ میں  ان طلبہ کے لئےزکات  دینا جائز ہے، لیکن دیتے  وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ رقم زکات کی ہے، البتہ مدرسہ کی تعمیرات، اساتذہ کی تنخواہ، گیس بجلی وغیرہ کے بل  میں زکات کی رقم دینا جائز نہیں۔

3۔۔۔۔۔جس شخص کی ملکیت میں ضرورت سے زائد نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے بقدر  نقد،مال تجارت، یا دیگر ضرورت سے زائد اتنا   سامان  نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت  کے بقدر ہو،تو اس شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ لہذا اگر مسجد کے امام کے پاس اس قدر  مال نہ ہو اور وہ سید بھی نہ ہو تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے،لیکن امامت کی اجرت میں دینا جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي.......ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(الفتاوى الهندية: كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف  (1/ 187، 188)، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں