بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی وجوب کے لئے نصاب اور سال گزرنا شرط ہے


سوال

میں نے آج تک زکوۃ نہیں دی ہے،  پچھلے سال رمضان میں میرے پاس 1 لاکھ کے قریب رقم ہوگی جس کو شاید ایک سال نہیں ہوا تھا،  اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،  اب میرے پاس اس سے زیادہ رقم ہے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں ابھی زکوۃ دوں یا ابھی صرف ٹوٹل کر کے رکھ لوں اور اگلا ایک سال پورا ہونے  پر زکوۃ ادا کروں؟

جواب

زکوۃ   کے واجب ہونے کے لئے نصاب  بھی ضروری ہے، اورقمری مہینوں کے اعتبار سے سال گزرنا بھی ضروری ہے، لہذا جس عرصہ میں سائل کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود نہیں تھا، اس عرصہ میں سائل پر زکوۃ واجب نہیں تھی،  اور پچھلے سال رمضان میں سائل کے پاس جو ایک لاکھ  کے قریب پیسے تھے،  چونکہ سائل کے گمان کے مطابق ان پیسوں پر سال نہیں گزرا تھا اس لئے پچھلے سال رمضان میں اس پر زکوۃ واجب نہیں تھی، البتہ   ان پیسوں کا سائل جس دن  مالک بنا تھا، چونکہ مذکورہ رقم نصاب کے برابر ہے ، اس لئےاس دن سے سائل کی زکوۃ کا سال شروع ہوگیا تھا، لہذا اگر یہ سال کے دوران مکمل خرچ ہوکر ختم  نہیں ہوئی، اور سال کے آخر میں بھی سائل نصاب کا مالک تھا یعنی ضرورت سے زائد اتنی رقم تھی جو ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت برابر یا زائد تھی تو ایسی صورت میں ان پیسوں پر    بلکہ اس میں  سال کے پورا ہونے سے پہلے جتنے پیسوں  کا اضافہ ہوا ہے اس پر بھی زکوۃ دینا لازم ہوگا۔ واضح رہے کہ زکوۃ کے لئے رمضان میں سال پورا ہونا ضروری نہیں، بلکہ سال کے دوران جس دن  بھی سال پورا ہوگا اس دن زکوۃواجب ہوگی۔

نور الایضاح میں ہے:

"شروط وجوبها الإسلام والبلوغ والعقل والحرية وملك نصاب حولي فارغ عن الدين وحاجته الأصلية نام ولو تقديرا، شروط وجوب أدائها حولان الحول القمري على النصاب الأصلي بحيث يوجد في طرفي الحول، ولونقص في وسطه".

(نور الإيضاح: كتاب الزكاة، شروط وجوبها  (ص: 120)، ط. دار الحكمة، دمشق،  1985م)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

"هي تمليك مال مخصوص لشخص مخصوص فرضت على حر مسلم مكلف مالك لنصاب من نقد ولو تبرا أو حلييا أو آنية أو ما يساوي قيمته من عروض تجارة فارغ عن الدين وعن حاجته الأصلية ولو تقديرا. وشرط وجوب أدائها حولان الحول على النصاب الأصلي وأما المستفاد في أثناء الحول فيضم إلى مجانسه ويزكي بتمام الحول الأصلي سواء استفيد بتجارة أو ميراث أو غيره".

(مراقي الفلاح شرح نور الايضاح: كتاب الزكاة (ص: 271)، ط. المكتبة العصرية، الطبعة  الأولى: 1425 هـ = 2005 م)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"وهي (واجبة) والمراد بالوجوب الفرض؛ لأنه لا شبهة فيه. هداية. (على الحر المسلم البالغ العاقل إذا ملك نصاباً) فارغاً عن دين له مطالب وعن حاجته الأصلية نامياً ولو تقديراً (ملكاً تاماً وحال عليه الحول)".

(اللباب في شرح الكتاب: كتاب الزكاة (1/ 136)، ط.  المكتبة العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں