بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم سے میت کا قرضہ ادا کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے والد کا انتقال ہوا،ان پر کچھ قرض تھا،لیکن ہماری اتنی وسعت نہیں ہےکہ ہم ان کا قرض ادا کریں،اور نہ ہی ترکہ میں اس کی گجائش ہے،لیکن والدصاحب نے یہ وصیت کی تھی کہ میرا قرض فلاں شخص ادا کرےگا،اب وہ شخص کہتاہے کہ میں اس کو زکاۃ کی مد میں سے ادا کروں گا،اب پوچھنایہ ہےکہ زکاۃ کی رقم سے مرحوم کا قرض ادا کیا جاسکتاہے یا نہیں؟اگر نہیں ہوسکتا تو کوئی ایساطریقہ بتائیں کہ جس سے ان کی زکاۃ بھی اداہوجائے اور ہمارے والد کا قرضہ بھی ادا ہوجائے۔

جواب

واضح رہے کہ میت کے ترکہ سے تجہیز و تکفین کے بعد جو ترکہ بچے گا اس میں سب سے پہلے میت کے تمام  قرضے اداکرنا فرض ہے، چاہے میت نے قرض اداکرنے کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو،  اور  چاہے اس کا یہ باقی ماندہ سارا ترکہ قرضوں ہی کی ادائیگی میں ختم ہوجائے، نیز یہ بھی واضح رہے کہ  زکات کا مصرف کسی مستحق شخص کو  بغیر عوض کے مالک بنانا ہوتا ہے  اور جو شخص  زکات کا مالک ہی نہیں بن سکتا  تو  اس کو زکات دینا یا اس کی طرف سے کسی مد میں زکوۃ خرچ کرنا جائز  نہیں ۔

لہذاصورتِ  مسئولہ مرحوم کا قرضہ ان کے ترکہ ہی سےادا کیاجائے، تاہم اگر مرحوم نےاتنا ترکہ چھوڑا ہی نہیں کہ اس سےقرضہ اداکیا جائے تو  زکات کی رقم سے براہِ راست  مرحوم کا قرض ادا نہیں کیاجاسکتا، البتہ اگر  اسکے ورثاء میں کوئی وارث غریب اور  زکات کا مستحق ہو تو زکوۃ اس  کو مالک بناکر دی جاسکتی ہے، تاکہ وہ  زکات کی رقم سے  اپنی رضامندی کے  ساتھ  میت کا قرض ادا کر دے تو  اس طرح  زکات بھی اداہوجائے گی اور قرض بھی اداہوجائےگا اور میت کو نجات  بھی مل جائےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم تقدم دیونه التي لھا مطالب من جهة العباد."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:760، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و لایجوز أن یکفن بها میت و لایقضی بھا دین المیت، كذا في التبیین."

(كتاب الزكوة، ج:1،ص، 188، ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"و حیلة الجواز أن یعطی المدیون الفقیر  زکاته ثمّ یأخذها  عن دینه."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:271، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں