بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم جلسہ وغیرہ میں صرف کرنے کا حکم


سوال

زکوٰۃ کی رقم نیک کام یعنی جلسہ وغیرہ میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں زکوۃ کی رقم جلسہ وغیرہ میں صرف کرنا جائز نہیں، اس لیے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک (یعنی مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم کا مختار و مالک بنا کر دینا) بنیادی شرط ہے جو جلسہ وغیرہ میں استعمال کرنے سے مانع ہے، لہذا جلسہ وغیرہ میں زکوۃ کی رقم استعمال کرنے سے گریز کرے۔ اگر جلسہ وغیرہ میں زکوۃ کی رقم صرف کی تو اس صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

" وفي اصطلاح الفقهاء ما ذكره المصنف (قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى) لقوله تعالى: وآتوا الزكاة۔ (البقرة: 43) والإيتاء هو التمليك، ومراده تمليك جزء من ماله، وهو ربع العشر أو ما يقوم مقامه... والمراد من إيتاء الزكاة إخراجها من العدم إلى الوجود كما في قوله: أقيموا الصلاة۔ (الأنعام: 72) كذا في المعراج۔"

(کتاب الزکاۃ: 2/ 201)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه۔"

(کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: 1/ 188، ط: ماجدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وبناء مسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن يعتق) بالجر بالعطف على ذمي، والضمير في دينه للميت وعدم الجواز لانعدام التمليك الذي هو الركن في الأربعة۔"

(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة: 2/ 243)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں