بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم ادارے والوں سے راستے میں چوری ہونے کی صورت میں زکات کا حکم


سوال

ایک شخص نے سیلاب زدگان کے لیےکسی ادارہ کو زکاة کی رقم دی، لیکن اس ادارہ والوں سے وہ رقم یا اس رقم یا سامان چوری ہوگیا ،وہ اس طرح کہ سیلاب زدگان کو دینے کےلیے جب یہ ادارے والے جارہے تھے تو راستے میں کچھ ڈاکوؤں نے وہ سارا سامان ان سے چھین لیا، تو آیا رقم دینے والوں کی زکاة ادا ہوگئی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ زکات کی ادائیگی کےلیے مالِ زکات کافقراءمساکین یا ان کے نمائندوں (وکیل)کو قبضہ  دےکرمالک بنانا ضروری ہے، جب تک کسی فقیرومسکین کو اس کا مالک نہ بنایاجائے،اس وقت تک زکات ادانہیں ہوگی ،فلاحی ادارے  کے ذمہ داران چوں کہ زکات  وغیرہ  دینے والوں کے نمائندے  ہوتےہیں اس لیےجب تک فلاحی ادارے وہ زکات مستحقین تک نہ پہنچائیں زکات دہندہ کی زکات ادانہیں ہوتی بلکہ اپنے ذمہ واجب الادارہتی ہے،نیز اگر ادارے والوں کی طرف سے غفلت نہیں ہوبلکہ حادثاتی طورپرمالِ زکات ضائع ہوجائےیالُٹ جائےتو اُن  پرضمان بھی لازم نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے ادارے کوزکات دی اور ادارے والوں سے وہ رقم یامالِ زکات چھیناگیا، تو اس سے مذکورہ شخص کی زکات ادانہیں ہوئی،بلکہ اس کے ذمہ زکات کی ادائیگی باقی ہے،دوبارہ زکات اداکرنا لازم ہوگا،نیز ادارہ کی طرف سے مالِ زکات کی حفاظت کے باوجودضائع ہونے کی وجہ سے ادارہ کے ذمہ پر اس کا ضمان نہیں آئے گا۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"و به يعلم حكم من يجمع للفقراء، ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلا من جانب الفقراء أيضا فلا ضمان عليه فإذا ضمن في صورة الخلط لاتسقط الزكاة ‌عن ‌أربابها فإذا أدى صار مؤديًا مال نفسه، كذا في التجنيس ... و أشار المصنف إلى أنه لا يخرج بعزل ما وجب ‌عن ‌العهدة بل لا بد من الأداء إلى الفقير لما في الخانية لو أفرز من النصاب خمسة ثم ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات بعد إفرازها كانت الخمسة ميراثا عنه بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء، كذا في المحيط، وفي التجنيس لو عزل الرجل زكاة ماله ووضعه في ناحية من بيته فسرقها منه سارق لم تقطع يده للشبهة وقد ذكر في كتاب السرقة من هذا الكتاب أنه يقطع السارق غنيًّا كان أو فقيرًا .'

(کتاب الزکاۃ، شروط اداء الزکاۃ،ج:2،ص:227،ط:دارالکتاب الاسلامی)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختارمیں ہے:

"ولوخلط زكاة مؤكليه ضمن وكان متبرعاّ،إلاإذاوكله الفقراء۔۔۔فإن فعل الوكيل كفعل المؤكل فكأن الفقيرهوالذى خلط الزكاتين ولاضيرفيه.'

(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:170،ط:دارالکتب العلمیۃ)

کفایت المفتی میں ہے:

'زکوۃ دینے والے کا وکیل اگر رقم ضائع کردےتو زکوۃ ادانہ ہوگی!

سوال:زیدنے مدِ زکوۃ وفطرہ مشترکہ کسی مدرسہ یتیم خانہ میں بذریعہ رجسٹری مذکورہ بالارقوم کوروانہ کیا مدرسہ مذکورہ کے ناظم کا خط آیاکہ رجسٹری مذکورمہربند دستیاب ہوئی،جس میں ایک رقعہ بھی ہمراہ تھا، وہ برآمد ہوا،لیکن رقوم نہ ملیں اب دریافتِ طلب یہ امرہے کہ زید کے ذمے سے ہردونوں کو زکوۃ وفطرہ ساقط ہوگئے یانہیں؟

جو اب:اس صورت میں بھیجے جانے والے کے ذمہ زکوۃ اور فطرہ ادانہیں ہوا،کیونکہ ڈاکخانہ مرسل کا وکیل ہےمرسل الیہ کا نہیں۔

(کتاب الزکاۃ والصدقات،ج:4،ص:297،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں