زید زکوٰۃ کے نصاب کا مالک تھا اب زید نے زکوٰۃ کے پیسے علیحدہ کرکے عمرو کو وکیل بنایا کہ یہ پیسے زکوٰۃ کے مستحقین کو دے دو ، اب عمرو نے زید سے کہا کہ آ پ یہ پیسے مجھے دو تین ماہ کے لیے ادھار دے دیں، اس کے بعد میں یہ پیسے زکوٰۃ کے مستحقین کو دے دو ں گا کیا یہ صورت جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں زید نے اپنی زکات کی رقم علیحدہ کر کے مستحقین زکات میں یہ رقم تقسیم کرنے کے لیے عمرو کو وکیل بنایا تو اس سے یہ رقم زید کی ملکیت سے خارج نہیں ہوئی تھی، لہٰذا زید کے لیے اپنے دوست کو قرض دینے کے لیے مذکورہ رقم دینا درست اور جائز ہے، البتہ جتنی زکات زید کے ذمہ میں باقی ہے، وہ بہرحال ادا کرنازید پر لازم رہے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء .(قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه."
(كتاب الزكاة، ج:2 ص:270 ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين."
(کتاب الزکوٰۃ، ص:170 ج:1 ط: رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101289
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن