بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے مسجد کی بجلی کا بل ادا کرنا


سوال

ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے جو حکومتِِ پاکستان کے زیر انتظام ہے، اس مسجد کی بجلی کا بل حکومت ادا کرتی آرہی ہے، لیکن سرکاری فنڈ کی قلت اور عدم دستیابی کی وجہ سے گزشتہ کئی مہینوں اور سالوں سے حکومت کی جانب سے بل کی ادائیگی نہیں ہو رہی، بلکہ گاہے بگاہے حکومت کی طرف سے تھوڑی بہت رقم جمع کرا دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں روپے بل کی مد میں لازم ہو چکے ہیں اور مارچ 2024 کا بل تقریباً 5300000  روپے تھا، بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اس مہینہ مارچ کی 11 تاریخ کو کے الیکٹرک والوں نے بجلی کی لائن منقطع کر دی تھی اور 12 دنوں تک مسجد کی بجلی منقطع رہی، جس کے بعد مسجد سے چندے کا اعلان ہوا، لیکن بہت کم رقم جمع ہوئی، تو ایسی مجبوری کی صورت میں کیا بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ کوئی غریب شخص کسی سے بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے قرض لے لے اور اس رقم سے وہ شخص بجلی کا بل ادا کر دے بعد ازاں  اس مقروض کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنا دیں اور وہ اس رقم سے اپنا قرض ادا کر دے؛ کیوں کہ زکوۃ کی رقم کے لیے تملیکِ فقیر لازم ہے، براہِ راست زکوۃ کی رقم سے بجلی کا بل ادا نہیں کیا جا سکتا، تو کیا شرعاً اوپر ذکر کردہ صورت اور طریقہ اختیار کر کے بجلی کے بل کا یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مسجد کی بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری انتظامیہ کی طرف سے بل کی ادائیگی نہیں کی جارہی ہے اور اہلِ محلہ کے چندے کی رقم بھی اس کے لیے ناکافی ہے، مزید یہ کہ بجلی کے محکمہ کی جانب سے مسجد کی بجلی منقطع بھی کردی گئی تھی، تو ایسی مجبوری کی صورت میں بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے یہ صورت اور طریقہ اختیار کرنا جائز ہے کہ کوئی غریب شخص کسی سے مسجد کی بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے قرض لے لے اور اس رقم سے وہ شخص بجلی کا بل ادا کر دے بعد ازاں  اس مقروض کو زکات کی رقم کا مالک بنادیا جائے اور وہ اس رقم سے اپنا قرض ادا کر دے، اس طرح اس کا قرض بھی ادا ہو جائے گااور بجلی کے بل کی بھی ادائیگی ہوجائیگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(كتاب الزكاة، ج:١، ص:١٧٠، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(‌ومنها ‌الغارم) ، وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير كذا في المضمرات."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:١، ص:١٨٨، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509101593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں