کیا زکوۃ کی رقم سے بہن کے ذمہ قرضہ ادا کیا جاسکتا جبکہ اس کا اپنا گھر ہے مگر غیر شادی شدہ ہے اسکی عمر 55سال ہے۔ پرائیویٹ جاب کرتی ہے،کبھی کام ملتاہے، کبھی نہیں۔
زکاۃ اس شخص کو دی جاسکتی ہے جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ اور قرض سے زائد نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے پاس(قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد) ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ تفصیل کی رو سے سائل کی بہن اگر مستحق زکاۃ ہے تو اس کو قرض ادا کرنے کے لیے زکاۃ دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ زیادہ ثواب کا باعث ہے ؛ اس لیے کہ اس میں صلہ رحمی بھی ہے۔
الدر المختار وحاشيه ابن عابدين ميں هے:
"أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره.
(قوله: فيجوز لو بأمره) أي يجوز عن الزكاة على أنه تمليك منه والدائن يقبضه بحكم النيابة عنه ثم يصير قابضا لنفسه فتح."
(کتاب الزکاۃ،ج2،ص345،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن