بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کا علاج کروانے کا حکم


سوال

کیا زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کا علاج کروانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو ‌أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض."

(كتاب الزكاة، ص:713، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

فتاوی شامی میں ہے:

"خرج الإباحة، فلو ‌أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض.....(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه......‌فلو ‌أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه....(قوله ‌فلو ‌أسكن إلخ) عزاه في البحر إلى الكشف الكبير وقال قبله والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو خاص بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. اهـ"

(كتاب الزكاة،ج:2، ص:257، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں