بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے عمرہ کرنے کا حکم


سوال

ایک بیوہ خاتون جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں اور وہ زکات لے کر اپنے اخراجات  کو پورا کرتی ہیں، اب ان کی خواہش عمرہ کرنے کی ہے اور لوگ ان کو زکات کی رقم دے کر عمرہ کرانا چاہتے ہیں، کیا اس خاتون کے لیے زکات کی رقم سے عمرہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت: اس خاتون کے پاس سوائے ایک چاندی کی انگوٹھی کے اور کچھ نہیں، اور کچھ رقم وہ بھی زکات کے طور پر ملی ہوئی جو وہ عمرہ کرنے کے لیے ہی جمع کر رہی ہیں ، زکات کی جمع شدہ رقم ایک لاکھ دس ہزار روپے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ زکات کے مستحقین وہ فقراء اور مساکین ہیں جن کے پاس زکات کا نصاب نہ ہو اور وہ سید یا ہاشمی بھی نہ ہو۔ زکات کا نصاب  ساڑھے سات تولہ سونا  یا ساڑھے باون تولہ چاندییا اس کے بقدر  مالِ تجارت ، نقدی یا ضرورت سے زائد سامان ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ خاتون کے پاس جو رقم جمع ہے وہ زکات کے نصاب سے زیادہ ہے، جس کی بنا پر اس کے لیے مزید زکات لینا جائز نہیں، خواہ عمرہ کرنے کے لیے ہو یا کسی اور کام کے لیے،  بلکہ سال گزرنے پر  خود ان خاتون پر زکات دینا واجب ہے، البتہ صدقات و خیرات کے ذریعے اس کی امداد کی جا سکتی ہے۔، تاہم اگر یہ خاتون اس رقم کو استعمال کرلے اور اس کے پاس موجود رقم ساڑھے باون تولہ چاندی سے کم ہو جائے تو اس کے لیے عمرہ کے لیے زکات لینا جائز ہوگا۔ 

رد  المحتار میں ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أَمسكهما ولو للنفقة۔"

(رد المحتار، ج:2، ص:267،مطبوعہ: دار الفکر بیروت)

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر۔۔۔ (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسكين من لا شيء له) على المذهب۔"

(رد المحتار، ج:2، ص:339،مطبوعہ: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں