ایک شخص کے پاس زکوٰۃ کی رقم موجود ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ یہ رقم میں کسی مدرسہ میں ہر ماہ دس ہزار روپے تنخواہ کی مد میں دیا کروں گا، کیا اس طرح کرنا صحیح ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ: میں ایک غیر رہائشی مدرسہ کا متولی ہوں، اگر میرے پاس کہیں سے زکوٰۃ کی رقم آئے تو میں اساتذہ کرام کو ان زکوٰۃ کے پیسوں سے تنخواہ ادا کرسکتا ہوں ؛ کیوں کہ میں خود زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہوں۔
زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مسلمان، مستحقِ زکوٰۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ دونوں صورتوں میں مدرسین یا مدرسہ کے عملہ وغیرہ کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے ، جب کہ زکوٰۃ بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے، نیز تنخواہ کی مد میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا."
(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:190، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144303100992
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن