بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے نفع کمانا


سوال

میرا تعلق ایک کمیونٹی جماعت کے ادارے سے ہے جس میں زکوۃ اور صدقات اور ڈونیشن جمع کرائے جاتے ہیں ،برادری کے مختلف لوگ ہمیں رقم دیتے ہیں، ہمارے پاس کچھ فنڈ زکوۃ اور صدقات کے بینک میں موجود ہیں ،کیا ہم یہ فنڈ کسی اسلامی بینک میں جمع کر کے مثلا نفع حاصل کر سکتے ہیں اور جو نفع زکوۃ کی رقم سے حاصل ہو وہ زکوۃ کی مد میں استعمال کرنا لازمی ہے اور اب تک جو پرافٹ نفع زکوۃ یا صدقات کی مد سے ہمیں حاصل ہو چکا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اسلامی بینکوں کے  سیونگ اکاؤنٹ  میں پیسے رکھوا کر نفع کمانا جائز نہیں ، نیز  زکوۃ اور صدقات اور ڈونیشن کی رقم بھی کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، اس لیے کہ ویلفیئر کے ادارے میں لوگ رقوم غریبوں کی مدد کے لیےدیتے ہیں اور زکوۃ کی رقم جب تک غریب  کی ملکیت میں نہیں جائے گی تب تک زکوۃ ادا نہیں ہوگی،  لہذا وہ جلد از جلد  غریبوں تک پہنچانا چاہیے،البتہ اب تک جو نفع حاصل ہوا    اور اس کو بینک سے نکال لیا ہو تو  اس کو مستحق زکوۃ افراد ہی کو پہنچادیا جائے۔ اور اگر نکالا ہی نہ ہو تو  مذکورہ اکاؤنٹ بند کرکے وہ رقم  وہیں چھوڑ دی جائے، لیکن اگر  وہ   وصول کر لیا ہو تو کسی مستحق کو ثواب  کی نیت کے بغیر دے  دیا جائے، ثواب کی نیت سے دینا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.

الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ٤ / ٣٣٨، ط: دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ.... أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اهـ."

( كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف، ٥ / ٢٥٩، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"(المادة ٧٩٨) : منافع الوديعة لصاحبها. يعني أن المنافع المتولدة من الوديعة تكون لصاحبها ; لأن المنافع المذكورة نماء ملك صاحبها يعني المودع. فلذلك نتاج حيوان الأمانة ولبنه وصوفه عائد لصاحبه."

( الباب الثاني في الوديعة، الفصل الثاني: في أحكام الوديعة وضمانها، ٢/ ١٥٣، ط: نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں