بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے مستحق کے لیے گھر خریدنا


سوال

ایک غریب خاتون ہے، اور اس کے پاس سونا، چاندی، یا نقدی رقم  کی صورت میں کچھ بھی نہیں ہے،اور ان کے شوہر بھی غریب اور مستحق زکوۃ ہے۔ اب گھر یلوں ناچاقی، اور جھگڑوں کی وجہ سے خاندان والے اس کو سسرال والوں سے  الگ  کرنا چارہے ہیں، تو ان کے لیے زکوۃ کی رقم سے مکان خرید کر دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ جس طرح کسی غریب، مستحق  زکوۃ  کو  زکوۃ کی  رقم  نقد  کی صورت میں دے سکتے ہیں، اسی طرح زکوۃ کی رقم سے  کوئی چیز  خرید کر کسی مستحق  کو مالک بناکر قبضہ دینے سے بھی  زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔

لہذا  صورت مسئولہ میں  مذکورہ خاتون غیر سیدہ اگر  واقعۃً زکوۃ  کی مستحق ہو یعنی  اس کی ملکیت  میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم  اور ضرورت سے زائد سامان موجود نہیں ہے، تو زکوۃ  کی رقم سے گھر خرید کر دینا جائز ہے، بشرطیکہ گھر  عورت کی ملکیت میں دے دیاجائے، اور ملکیت میں دینے کے بعد  زکوۃ  دینے والے کا  اس گھر میں کسی قسم کا کوئی حق وتعلق باقی نہ رہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى."

(كتاب ‌الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،ج1، ص170، ط:رشيدية)

الدر المختار میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة."

(‌‌شامي ، كتاب الزكاة، باب المصرف، ج2، ص344، ط: سعید)

الدر المختار میں ہے:

"وشرعا (تمليك)...(جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع)...(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه ...مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه)فلا يدفع لأصله وفرعه  (لله تعالى) ."

(شامی، ‌‌كتاب الزكاة، ج2، ص258،256، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں