بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے میت کا قرضہ ادا کرنے کا حکم


سوال

ہمارے مدرسہ کا باورچی  مدرسہ  سے  تقریبًا  50000  سے زائد رقم قرض  لے کر بیرونِ  ملک  سال  لگانے  گیا،  وقت مکمل ہونے سے ایک ماہ قبل طبیعت خراب ہونے اور اس ملک میں علاج کی سہولیات کی عدمِ موجودگی کی وجہ سے مشورہ اور بڑوں کی اجازت سے وہ پاکستان واپس آیا ،  گھرجانے سے پہلے ہی طبیعت کے بگڑنے کی وجہ سے  ہسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا،  انہوں نے جماعت کے ساتھیوں کو وصیت کی تھی کہ میرا قرضہ ادا کروانا،  اب اگر کوئی شخص زکات کی قیمت سے اس کا قرض  مدرسہ کو ادا کرے تو قرض ادا اور  زکات ادا ہوئی یا نہیں؟اگر نہیں تو کوئی صورت بتائیں کہ قرض بھی اترے اور زکات بھی ادا ہو،  اور  اگر وہ مقروض صاحبِ  نصاب ہو تو زکات سے قرض ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ 

جواب

واضح رہے میت کے ترکہ سے تجہیز و تکفین کے بعد جو ترکہ بچے گا اس میں سب سے پہلے میت کے تمام  قرضے اداکرنا فرض ہے، چاہے میت نے قرض اداکرنے کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو،  اور  چاہے اس کا یہ باقی ماندہ سارا ترکہ قرضوں ہی کی ادائیگی میں ختم ہوجائے، نیز یہ بھی واضح رہے کہ  زکات کا مصرف کسی مستحق شخص کو  بغیر عوض کے مالک بنانا ہے  اور جو شخص  زکات کا مالک ہی نہیں بن سکتا  تو  اس کو زکات دینا یا اس کی طرف سے کسی مد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے۔

بصورتِ  مسئولہ مرحوم کا قرضہ اس کے ترکہ ہی سےادا کیاجائے، تاہم اگر مرحوم نےاتنا ترکہ چھوڑا ہی نہیں کہ اس سےقرضہ اداکیا جائے تو  زکات کی رقم سے براہِ راست  مرحوم کا قرض ادا نہیں کیاجاسکتا، البتہ اگر  اسکے وارث غریب اور  زکات کے مستحق ہیں تو ان کو مالک بناکر دیا جاسکتا ہے؛ تاکہ وہ  زکات کی رقم کے مالک ہوکر اپنی رضامندی کے  ساتھ اس رقم سے میت کا قرض ادا کردیں، اس طرح  زکات بھی اداہوجائے گی اور قرض بھی اداہوجائےگا اور میت کو نجات  بھی مل جائےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم تقدم دیونه التي لھا مطالب من جهة العباد."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:760، ط:ایچ ایم سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"لو مات من علیه الزکاۃ لاتؤخذ من ترکته لفقد شرط صحتھا و هو النیة."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:211، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و لایجوز أن یکفن بها میت و لایقضی بھا دین المیت، كذا في التبیین."

(كتاب الزكوة، ج:1،ص، 188، ط:مکتبة حقانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و حیلة الجواز أن یعطی المدیون الفقیر  زکاته ثمّ یأخذها  عن دینه."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:271، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں