بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰة کی رقم سے جنرل اسٹور بنانا، اور کمائی سے مستحقین کی مدد کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے سے متعلق کہ ایک شخص کی سالانہ زکوۃ تقریباً 80 / 90  لاکھ روپے ہوتی ہے جسے وہ مستحقین میں بانٹ دیتا ہے ، اب اس کی خواہش ہے کہ وہ ان پیسوں سے کوئی جنرل اسٹور یا مارٹ وغیرہ بنا کر اس کی بچت سے سال بھر فقراء و مساکین کی مدد کرتا رہے، کیونکہ سالانہ زکوۃ سے مستحقین کو صرف دس بیس ہزار روپے ملتے ہیں،  باقی پورا سال ان کی کوئی امداد نہیں ہو سکتی،  جنرل اسٹور یا مارٹ بن جانے کی صورت میں ہر مہینے ان کی کچھ نہ کچھ مدد ہوتی رہی گی،  اور ان کو راشن وغیرہ ملتا رہے گا ۔

کیا یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے؟  اور کس طرح زکوۃ کی رقم سے جنرل اسٹور یا مارٹ  قائم کر کے اسے آگے چلایا جائے؟

اس مسئلہ میں شرعی راہنمائی فرما دیں ۔ 

جواب

واضح رہے کہ زکوٰة کی ادائیگی کے لیے زکوٰة کی رقم یا اشیاء کا مستحق زکوٰة کو کسی عوض کے بغیر مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے، نیز زکوٰة کا جب تک مستحق کو مالک نہ بنا دیا جائے، وہ رقم زکوٰة ادا کرنے والے کی ملکیت میں رہتی ہے، اور اس میں ادائیگی زکوٰة کے علاوہ جو کچھ تصرف وہ کرتا ہے، اور منافع پاتا ہے، اس کا وہی مالک ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں سائل اپنی زکوٰة کی رقم سے جو جنرل اسٹور یا مارٹ کھولنا چاہتا ہے، تو جنرل اسٹور یا مارٹ  کھولنے سے  اس کی زکوٰة  ادا نہیں ہوگی، بلکہ بدستور واجب الأداء رہے گی، جبکہ جنرل اسٹور یا مارٹ سائل کی ہی ملکیت شمار ہوگا، اور سال مکمل ہونے پر مذکورہ مارٹ کی تجارتی سامان پر الگ سے زکوٰة  بھی واجب ہوگی، جو زکوٰة  کے ان 80 / 90 لاکھ کے علاوہ ہوگی، جو اس پر گزشتہ سال واجب ہوئے تھے، ہاں اگر مستحقین کو زکوۃ کی رقم دے کر ترغیب دیں کہ فلاں جنرل سٹور یا مارٹ کا شیئر خریدلیں پھر وہ رقم دے کر شیئرز خریدلیں تو ہر شریک اپنے اپنے شیئرز کے حساب سے اصل اور نفع میں حصہ دار ہوں گے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."

(کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ، ٢ / ٣٩، ط: دار الکتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ١ / ١٧٠، ط: دار الفكر)

البناية شرح الهدايةمیں ہے:

"والزكاة لا تجوز أن تدفع عوضا عن شيء."

( كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقات إليه ومن لا يجوز، ٣ / ٤٥٠، ط: دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الثاني فی عروض التجارۃ، ١ / ١٧٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508102171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں