بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم سے فلاحی کام کرانا


سوال

ہم کافی  سارے کزن ہیں اور ہم نے مل کے اپنے دادا کے نام سے ان کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک فاؤنڈیشن بنائی ہے، ایک کزن کے پاس ہم اپنی زکوۃ، صدقات اور عطیات وغیرہ جمع کراتے ہیں اور یہ رقم فلاحی کاموں میں خرچ کی جاتی ہے تو  کیا اس طرح ہماری زکوۃادا ہو جائے گی؟  اگر ہم اس کزن کو اس فاؤنڈیشن کی مد میں زکوۃ کی رقم دیں تو اس طرح ہم زکوۃ کی ادائیگی سے بری الذمہ  ہو جائیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں عطیات و صدقاتِ نافلہ سے ہر جائز فلاحی کام کرسکتے ہیں، تاہم زکاۃ کی ادائیگی کے لیے چوں کہ مستحقِ زکاۃ افراد کو مالک بنانا شرعاً ضروری ہے، لہذا اس مد کی رقم سے ایسے فلاحی کام کرنے کی شرعاً اجازت نہیں جس میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جاتا ہو، مثلاً مسجد، مدرسہ، اسپتال، اسکول سڑک وغیرہ  کی تعمیر، یا  کسی مردے کے کفن دفن کا انتظام کرنا، یا  کنواں کھودوانا وغیرہ۔  پس اس نوع کے  فلاحی کام کرنے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، تاہم ایسے  فلاحی کام جس میں مستحقِ زکاۃ شخص کو باضابطہ مالک بنایا جاتا ہو، جیسے مستحق افراد کے بچوں کے تعلیمی اخراجات یا مستحق مریض کے علاج معالجہ کے اخراجات اٹھانے میں (انہیں رقم یا دوا کا مالک بناکر) ان کی مدد کرنا وغیرہ یا انہیں راشن دے دینا، اس سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔

پس مذکورہ فلاحی ادارے کے ذمہ دار کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ زکاۃ کے احکام معلوم کرکے، زکاۃ کی رقم صحیح مصرف خرچ کرے؛ یعنی صرف مسلمان فقیر، غریب، محتاج اور ضرورت مندوں میں بغیر کسی عوض کے مالکانہ طور پر تقسیم کرے، بصورتِ دیگر زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا نہ ہوگی۔

نیز مذکورہ فاؤنڈیشن میں زکاةجمع کر دینے سے زکاة ادا نہ ہوگی، تا وقتیکہ مستحق تک مالکانہ  حقوق کے ساتھ نہ پہچادی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَ لَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَا يُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَلَا يَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي."

(كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: ظار الفكر)

الدر المختار میں ہے:

"وَ لَا يَخْرُجُ عَنْ الْعُهْدَةِ بِالْعَزْلِ بَلْ بِالْأَدَاءِ لِلْفُقَرَاءِ."

( شامي، كتاب الزكوة، ٢ / ٢٧٠، ط: دار الفكر)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"وَ يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الصَّرْفُ (تَمْلِيكًا) لَا إبَاحَةً كَمَا مَرَّ."

(شامي، كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة و العشر، ٢ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں