بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کرواسکتے ہیں؟


سوال

ہمارے علاقے میں پانی کی بہت زیادہ قلت ہے، آٹھ سے نو میل دور پانی ملتا ہے، تو ایک شخص نے مجھے کہا کہ یہاں زکوٰۃ کے پیسوں سے بورنگ کروا دیتا ہوں، اور کہا کہ آپ مفتی صاحب سے لکھوا کر لے آؤ کہ زکوٰۃ کے پیسوں سے بورنگ کروائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح زکوٰۃ کے پیسوں سے بورنگ کروائی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں کروائی جاسکتی تو اس کا کوئی شرعی حیلہ بتادیں، تاکہ پانی کی قلت دور ہوجائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کروانا جائز نہیں کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک (یعنی مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم کا مختار و مالک بنا کر دینا) شرط ہے، اگر زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت تملیک کی شرط نہیں پائی گئی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، زیر نظر مسئلہ میں جب مذکورہ علاقے میں پانی کی قلت ہے تو اہل خیر حضرات کو چاہیئے کہ نفلی صدقات و عطیات کے ذریعے اس کار خیر میں حصہ لیں تاکہ علاقے والوں کو پانی کی سہولت میسر ہو، اور اگر اس پریشانی سے نجات کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو تو اس صورت میں زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو دے دی جائے اور اس کو مالک بنادیا جائے پھر اس سے درخواست کی جائے کہ پانی کی قلت دور کرنے کے لئے بورنگ کے سلسلے میں تعاون کرے تاکہ اہل علاقے کو فائدہ پہنچے، اور وہ اپنی خوشی و رضا سے جتنا چاہے تعاون کرے، تاہم زکوٰۃ دینے کے بعد مستحق زکوٰۃ سے جبراً بورنگ کے کام میں رقم لگوانا جائز نہیں کیونکہ وہ مالک ہے اور اس کو اپنی ملکیت کی رقم پر مکمل اختیار ہے یا یہ کرے کہ کسی غریب آدمی کو کہے کہ کسی سے قرض لے کر بورنگ کروادے، پھر اس کا قرض اتارنے کے لئے اس کو زکوۃ کی رقم دے تاکہ قرض بھی ادا ہوجائے اور صاف رقم سے بورنگ ہوجائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى هذا في الشرع۔

(کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها: 1/ 170، ط: ماجدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

وفي اصطلاح الفقهاء ما ذكره المصنف (قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى) لقوله تعالى: وآتوا الزكاة۔ (البقرة: 43) والإيتاء هو التمليك، ومراده تمليك جزء من ماله، وهو ربع العشر أو ما يقوم مقامه... والمراد من إيتاء الزكاة إخراجها من العدم إلى الوجود كما في قوله: أقيموا الصلاة۔ (الأنعام: 72) كذا في المعراج۔

(کتاب الزکاۃ: 2/ 201)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه۔

(کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: 1/ 188، ط: ماجدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

(قوله وبناء مسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن يعتق) بالجر بالعطف على ذمي، والضمير في دينه للميت وعدم الجواز لانعدام التمليك الذي هو الركن في الأربعة۔

(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة: 2/ 243)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں