بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰة کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہیں دینا


سوال

1۔ گاؤں میں چھوٹے مدارس ہیں،  جہاں چھوٹے بچے پڑھے ہیں، جو غیر رہائشی ہیں ، لیکن ان کے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی ، تو کیا ہم ان کو یہاں سے اپنی زکوۃ بھیج سکتے ہیں؟  اگر بھیج سکتے ہیں تو تملیک کی صورت کیا ہوگی؟

2۔ یہاں زکوۃ ہرماہ اجتماعی جمع کرتا ہوں، اور پھر وہاں بھیجتا ہوں، تو تملیک کی صورت کیا ہو گی؟ تاکہ وہاں کے اساتذہ کو  تنخواہیں دی جا سکیں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ زکوٰة  کی رقم سے مدرسہ کے اساتذہ کو تنخواہ دینا جائز نہیں، اور  زکوٰة  کی رقم سے تنخواہ  دینے کی صورت میں  زکوٰة ادا نہیں ہوتی، لہذا صورت مسئولہ مذکورہ مدرسہ میں تعلیم  حاصل کرنے والے طلبہ پر ماہانہ فیس مقرر کر دی جائے اور مستحق زکوۃ طلباء کو زکوۃ کی رقم   سے ان کو فیس کے بقدر رقم دے دی جائے ،  پھر وہ اپنی فیس ادا کر دیں،  اس صورت میں فیس کی مدد سے جمع شدہ رقم سے تنخواہ وغیرہ دیگر اخراجات کرنا جائز ہوگا۔

واضح رہے کہ نابالغ بچوں کو زکوۃ دینے کے لیے ان کے والد کا مستحق زکوٰۃ ہونا ضروری ہوگا ۔

2۔ ہر ماہ جو رقم زکوٰة کی مد میں جمع ہو، وہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق استعمال کی جائے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

" ولا يصرف في بناء مسجد وقنطرة، ولا يقضي بها دين ميت، ولا يعتق عبدا، ولا يكفن ميتا، والحيلة لمن أراد ذلك أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه، فيكون لصاحب المال ثواب الصدقة، ولذلك الفقير ثواب هذه القرب."

( كتاب الزكاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه، ٢ / ٢٨٢ - ٢٨٣، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں