بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے مدرسہ کی تعمیر اور داخلہ فارم پر وکالت کا دستخط لینے کا حکم


سوال

میں ایک مدرسہ کا مہتمم ہوں، ہمارے مدرسہ میں 350 طلبہ علم حاصل کر رہے ہیں، اور سب کے سب غیر رہائشی ہیں، مدرسہ کی تعمیر نہیں ہے، بس ایک چھپرا سا ہے، اور کچھ کمرے، کیا زکوۃ کے پیسوں سے ہم تعمیرات کروا سکتے ہیں؟ کیوں کہ ہمارے پاس کوئی اور فنڈ نہیں ہے۔

جب طلبہ ہمارے پاس داخلہ لینے آتے ہیں تو ہم جو داخلہ فارم دیتے ہیں اس میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ مدرسہ آپ کی طرف سے وکیل ہو گا، لہذا اس وکالت کی وجہ سے مدرسہ میں جو زکوۃ آتی ہے وہ مدرسہ تعمیرات میں صَرف کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور زکوۃ کے معاملہ میں اس طرح کی وکالت شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟

جواب

  زکوٰۃ  ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکوۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد کی تعمیر  وغیرہ پر زکوۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔

پھر اگر مدرسہ پس ماندہ اور غریب علاقے میں ہو اور سنجیدہ کوششوں کے باوجود تعمیرات کے لیے غیر زکوۃ رقوم کی کوئی صورت نہ بن پائی ہو تو اس صورت میں بقدرِ ضرورت بوجہ مجبوری شرائط کے ساتھ حیلہ کی گنجا ئش ہو گی، جس کی صورت یہ ہو گی کہ فقیر کو زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، اور زکوۃ کی رقم دیتے وقت اس کو مدرسہ کی تعمیرات کی ضروریات بتادی جائیں، اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتاہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو اسے مدرسہ کی تعمیرات کے اخراجات میں صرف کرے اور چاہے تو خود استعمال کرے اور پھر وہ فقیر دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے مدرسہ کی تعمیرات کے مصارف میں کچھ یا پوری رقم دے دے تو اس سے مدرسہ کی تعمیر کی گنجائش ہوگی۔

باقی جہاں تک وکالت نامہ پر دستخط سے متعلق سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ وکالت نامے کی بنیاد پر باقاعدہ تملیک کے بغیر زکوٰۃ کی رقم کو مدرسہ کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں چند خرابیاں ہیں، جو یہ ہیں:

1. عام طور پر زکوۃ رمضان میں وصول کر لی جاتی ہے اور طلبہ کا داخلہ شوال میں ہوتا ہے تو وکالت حاصل کرنے سے پہلے موکل کی طرف سے زکوۃ وصول کرنا لازم آتا ہے، اور یہ درست نہیں۔

2. وکالت انتہائی مجہول ہوتی ہے،   کتنی مقدارِ زکاۃ وصول کریں گے؟ جن افراد سے مالِ زکاۃ و صدقات وصول کیا جائے گا وہ افراد و اشخاص کون ہیں؟ اور کن کن مصارف میں کتنا کتنا خرچ کریں گے؟ کچھ واضح نہیں ہوتا۔

3. طلبہ مدرسہ چھوڑ کر جاتے ہیں اور ان کی وکالت سے وصول کی ہوئی رقم مدرسہ میں موجود ہوتی ہے، اس کے مالک طلبہ ہوتے ہیں، ان کو واپس بھی نہیں کی جاتی۔

4. وکالت نامہ پر دستخط جبری ہوتا ہے، ورنہ داخلہ نہیں دیا جاتا۔

5. مذکورہ وکالت کی نظیر نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور سلف صالحین کے دور میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ  باقاعدہ تملیک کیے بغیر صرف داخلہ کے وقت وکالت نامہ پر دستخط کرواکر زکوۃ کے مال کو طلبہ پر یا مدرسہ کی دیگر ضروریات پر خرچ کرنا درست نہیں ہے۔  (مستفاد از جواہر الفتاویٰ،   جلد:2، صفحہ: 441، طبع: اسلامی کتب خانہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، جلد:1، صفحہ: 188، طبع: رشیدیہ)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."

(كتاب الزكوة، جلد:2 صفحہ: 256، طبع:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ‌ثواب ‌الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة."

(کتاب الحیل، الفصل الثالث فی مسائل الزکوۃ، جلد:6، صفحہ: 392، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں