میرے پاس زکاۃ کے پیسے ہیں، اب میں اس کو کسی غریب آدمی یا مستحقِ زکاۃ مسجد کے امام کو اس کا مالک بنا کر پھر ان پیسوں سے مسجد بنانا چاہتا ہوں، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ یا کوئی اور حل بتائیں۔
واضح ہو کہ زکات کی رقم جس مستحقِ زکاۃ کو دی جاتی ہے، وہ شخص اس کا مالک بن جاتا ہے اور اسے اپنی ملکیت کی رقم پر مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے جیسے چاہے خرچ کرے لہذا صورت مسئولہ میں زکاۃ کی رقم (خواہ عام مستحقِ زکوۃ آدمی کو دی جائے یا امامِ مسجد کو) دینے کے بعد زکاۃ وصول کرنے والے کو اس کا پابند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسے مسجد بنانے میں لگائے۔ البتہ زکوۃ کا مالک بنانے کے بعد اسے کسی مسجد میں رقم لگانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے جس کے بعد وہ اپنی خوشی سے مسجد میں رقم لگانا چاہے تو لگا سکتا ہے جس کا ثواب اسے ملے گا،اگر وہ نہ لگانا چاہے تو اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
باقی سائل مسجد کے اخراجات میں زکاۃ کے علاوہ رقم استعمال کرسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه)."
(کتاب الزکاۃ، ۲ ؍ ۲۵۸، ط : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100531
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن