ہمارے علاقہ میں مسجد کی تعمیرات کا کام چل رہا ہے، تو کیا میں اپنی زکات کی رقم مسجد کی تعمیرات میں لگا سکتا ہوں؟
ادائیگی زکات کے لیے زکات کی رقم مستحق زکات شخص کو مالک بناکر دینا چوں کہ شرعًا ضروری ہے، اس کے سبب زکات کی رقم مسجد، مدرسہ، اسپتال کی تعمیر میں صرف کرنے یا کسی فلاحی و رفاہی کام میں لگانے سے زکات ادا نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد کی تعمیر میں زکات کی رقم دینا جائز نہیں، اور دینے کی صورت میں زکات ادا نہیں ہوگی، بلکہ آپ کے ذمہ میں بدستور واجب الادا رہے گی، پس مسجد کی تعمیر میں زکات و صدقاتِ واجبہ کے علاوہ صاف مال سے حصہ ڈالنا چاہیے، البتہ ہر ممکن کوشش کے باوجود مسجد کی تعمیر کے اخراجات کا کوئی انتظام نہ ہوسکے تو ایسی صورت میں زکات کی رقم کسی مستحق زکات کو مالک بناکر دے دی جائے، پھر اسے مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کی ترغیب دی جائے، اگر وہ اپنی خوشی سے کسی جبر و اکراہ کے بغیر مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالتا ہے تو ایسی صورت میں یہ اس کے لیے باعث اجر ہوگا۔ اور اگر وہ مسجد کی تعمیر میں نہیں دیتا تو اس پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنا یا اس سے شکوہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَلَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَايُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَا يُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَلَا يَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي.
( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
إذَا أَرَادَ أَنْ يُكَفِّنَ مَيِّتًا عَنْ زَكَاةِ مَالِهِ لَا يَجُوزُ (وَالْحِيلَةُ فِيهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَى فَقِيرٍ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ) ، ثُمَّ هُوَ يُكَفِّنُ بِهِ الْمَيِّتَ فَيَكُونُ لَهُ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ وَلِأَهْلِ الْمَيِّتِ ثَوَابُ التَّكْفِينِ، وَكَذَلِكَ فِي جَمِيعِ أَبْوَابِ الْبِرِّ الَّتِي لَا يَقَعُ بِهَا التَّمْلِيكُ كَعِمَارَةِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَاءِ الْقَنَاطِرِ وَالرِّبَاطَاتِ لَا يَجُوزُ صَرْفُ الزَّكَاةِ إلَى هَذِهِ الْوُجُوهِ. (وَالْحِيلَةُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمِقْدَارِ زَكَاتِهِ) عَلَى فَقِيرٍ، ثُمَّ يَأْمُرَهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالصَّرْفِ إلَى هَذِهِ الْوُجُوهِ فَيَكُونَ لِلْمُتَصَدِّقِ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ وَلِذَلِكَ الْفَقِيرِ ثَوَابُ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ وَالْقَنْطَرَةِ.
(كِتَابُ الْحِيَلِ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي مَسَائِلِ الزَّكَاةِ، ٦ / ٣٩٢، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200420
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن