ہمارا ایک ویلفیئر ادارہ ہے، اور ہمیں ایک شخص نے اندرون سندھ میں ایک زمین وقف کی ہے، اور وہاں ہمارا مقصد ڈسپینسری بنانا اور مکانات بنانا ہے، اور ڈسپینسری میں ان لوگوں کا علاج ہو گا جو کہ مستحق زکوۃ ہیں، اب اگر ہم زکوۃ کی رقم کو تملیک کر کے وہاں ڈسپینسری بنائیں اور وہاں مستحق زکوۃ لوگوں کا فری میں علاج ہو تو کیا یہ درست ہے؟ تملیک کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ فقیر کو زکوۃ کا مالک بنانے کے بعد اس کو ترغیب دیں گے کہ وہ اس رقم میں جتنا اپنے پاس رکھنا چاہے، رکھے، اور جتنا ہمیں دے سکتا ہے، دے دے تاکہ ہم اس سے فلاحی کام کریں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اندرون سندھ میں بہت لوگ ایسے ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے مکانات نہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں 30 سے 40 گھر کی ایک آبادی بنائی جائے اور مستحق زکوۃ لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات دیے جائیں، اگر وہ وہاں سے چلے جاتے ہیں تو ہم کسی دوسرے مستحق زکوۃ کو وہ مکان رہنے کے لیے دے دیں جیسے کہ مدارس میں دار الاقامہ کا نظام ہوتا ہے، اور یہ مکان ہم زکوۃ کی رقم کو تملیک کر کے بنانا چاہتے ہیں، تو کیا یہ عمل شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ یعنی یہ مکانات مستحقین زکوۃ کو عاریۃً دیں گے، وہ ہمیں ہی واپس کر دیں تاکہ ہم کسی اور مستحق کو دے دیں۔
واضح رہے کہ زکوۃ کا مصرف وہ مسلمان ہے جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، ایسا آدمی زکوۃ کا مستحق ہے اور ایسے شخص کو مالک بنا کر زکوۃ دینا ضروری ہے۔
لہذا اگر زکوٰۃ کی رقم سے مکانات تعمیر کرکے مستحق زکوٰۃ لوگوں کو غیر مشروط طور پر دےکر اس کا مالک بنا دیا جائے تو اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، لیکن اگر مکانات مستحق زکوٰۃ کو غیر مشروط طور پر مالک بنائے بغیر محض رہنے کے لیے دیے جائیں تو اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے ڈسپنسری بناکر اس میں مستحق زکوٰۃ لوگوں کا مفت علاج کرنے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، بلکہ یہ کام عطیہ فنڈ سے کرنا ضروری ہے، تاہم زکوٰۃ کی رقم سے دوائیاں لائی جائیں اور وہ مستحق زکوٰۃ لوگوں کو مفت دی جائیں تو یہ صورت درست ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے مکانات اور ڈسپنسری بنانا اور مکانات مستحق لوگوں کو عاریۃً دینا اور ڈسپنسری میں لوگوں کا مفت علاج کرنا درست نہیں، نیز یہ ایسی کوئی شرعی ضرورت بھی نہیں کہ جس کے لئے حیلہ تملیک کے ذریعہ زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جائے کیوں کہ حیلہ تملیک کی گنجائش محض ضرورت اور مجبوری کی صورت میں ہوتی ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
'لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين'.
(1/ 188، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ط؛ رشیدیه)
الدر المختار میں ہے:
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(كتاب الزكاة : 2 / 256 ، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101479
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن